کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 23
فَبِقَلْبِہِ، وَذٰالِکَ أَضْعَفُ الْاِیْمَانِ) (صحیح مسلم) ’’تم میں سے جو شخص کوئی برائی کو دیکھے، اسے ہاتھ سے مٹادے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے (منع کرے)، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے (نفرت کرے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘ (۳) قبروں پر مسجدتعمیرکرنا جائز نہیں ہے، نہ مسجد میں میت دفن کرنا اس قسم کی مسجد میں نماز پڑھنا بھی درست نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أَلَا وَأِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلِکْمْ کَانُو یَتَّخِذُوْنَ قُبُوْرَ أَنْبِیَائِھِمْ وَصَالِحَیھِمْ مَسَاجِدَ أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ أَنْھَاکُمْ عَنْ ذٰالِکَ) (صحیح مسلم) ’’سنو! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء ووالیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیاکرتے تھے، سنو! تم لوگ قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا، میں تمہیں اس حرکت سے منع کر رہا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم) وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز ٭٭٭ فتویٰ (۴۴۴۰) دین کو گالی دینے، دینی شعائر کا استہزاء کرنے والے جہالت کی بنا پر شرک وبدعت کا حکم سوال (۱) کیا دین کو گالی دینے والے پر فوراً کفر کا حکم لگایا جائے گا؟ علاوہ ازیں اس مسئلے میں ایک دین کا دوسرے دین سے کوئی فرق ہے؟ نیز عورت یا بچے کا دین کو گالی دینے کا کیا حکم ہے؟ (۲) اگر کوئی شخص داڑھی، شرعی قمیص یا مسلمانوں کا مذاق اڑاتا ہے تو کیا اس مسئلہ میں اور دین کو گالی دینے کے مسئلہ میں دینی تعلیمات سے لاعلمی عذر بن سکتی ہے؟ (۳) کیا قبر پرستی اور طاغوت کی پوجا کے مسئلہ میں جہالت کو عذر قرار دیا جاسکتا ہے؟ اسی طرح ’’دینی سرگرمیوں کے مقابلہ (یعنی مخالفت)‘‘ کا معاملہ ہے، کیا اس شعبہ کے ملازمین جہالت کی وجہ سے معذور قرار دئے جاسکتے ہیں؟ (۳) ایک مسلمان غیراللہ کے لئے ذبح کرات ہے یا غیر اللہ کو پکارتا ہے یا طاغوت سے تعاون کرتا ہے تو ان مسائل سے واقف ایک عام مسلمان کے سمجھانے سے ایسے لوگوں پر حجت قائم ہوجاتی ہے یا حجت قائم ہونے کی کچھ اور شرطیں بھی ہیں؟ جواب الْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ آلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: (۱) حکمت اور وعظ ونصیحت کے ذریعے اللہ تعالیٰ (کے دین) کی طرف دعوت دینا اور اچھے انداز سے بحث مباحثہ کرنا شرعی طور پر مطلوب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَ ہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ﴾ (النحل۱۶/ ۱۲۵) ’’اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے ایسے اندز سے بحث