کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 223
قیام قیامت تک کے تمام اولیاء کی گردن پر ہیں۔‘‘ جب اس سے سوال کیا گیا کہ کیا اللہ تعالیٰ اس کے بعد اس سے زیادہ درجہ والا ولی پیدا کرنے پر قادر نہیں؟ تو اس نے کہا: ’’قادر تو ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا کردے، لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا، اس کے مرید اس کی ان باتوں پر ایمان رکھتے اور ا سکا دفاع کرتے ہیں۔ (۶) اس نے یہ جھوٹا دعویٰ بھی کیا ہے کہ وہ غیب جانتا ہے اور دلوں کی باتو ں سے واقف ہے اور دلوں کو ادھر سے ادھر پھیر سکتا ہے، اس کے مرید اس کی تصدیق کرتے ہیں اور ان باتوں کو اس کی تعریف اور کرامت قرار دیتے ہیں۔ (۷) اس نے قرآن مجید کی آیات کی غلط تفسیر کی ہے اور ان میں معنوی تحریف کا ارتکاب کیا ہے اور اسے تفسیر اشاری قرار دیا ہے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا تفصیل میں بطور اس آیت کی مزعومہ تفسیر پیش کی گئی ہے: ﴿مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ ٭بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَا یَبْغِیَان﴾ اس کے مرید اسے اللہ کی طرف سے حاصل ہونے والا فیض قرار دیتے ہیں۔ (۸) وہ درود شریف کو تلاوت قرآن سے افضل صرف چوتھے درجے والو ں کیلئے قرار دیا یتا ہے، جو اس کی نظر میں ادنیٰ درجہ کے افراد ہیں۔ (۹) اس کا اور اس کے پیروکاروں کا یہ دعویٰ ہے کہ قیامت کے دن میدان محشر میں ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: ’’اے محشر والو! یہ تمہا را امام ہے جس سے تمہیں دنیا میں مدد ملتی تھی۔‘‘ (۱۰) ا س کا دعویٰ ہے کہ جو شخص تیجانی سلسلۂ کا فرد ہوگا وہ بلا حساب کتاب جنت میں جائے گا خواہ اس نے کتنے گناہ کئے ہوں۔ (۱۱) اس کا کہنا جو شخص اس کے سلسلے میں منسلک ہو اور پھر اسے چھوڑ کر کسی اور سلسلہ تصوف میں داخل ہوجائے، اس کی حالت خراب ہوجائے گی اور اس کے بارے میں خطرہ ہے کہ اس کا انجام برا ہوگا اور اس کی موت کفر پر آئے گی۔ (۱۲) وہ کہتا ہے کہ مرید کو شیخ کے سامنے اس طرح ہونا ضروری ہے جس طرح میت غسال (نہلانے والے) کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور اسے کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ بلکہ اسے اپنے پیر کا پوری طرح مطیع ہونا چاہئے۔ یہ نہ کہے: ’’کیوں؟ کیسے؟ کس بنیاد پر؟ کس مقصد کے لئے؟‘‘ (۱۳) اس کا دعویٰ ہے کہ اسے اسم اعظم ملا ہے اور اسے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسم اعظم سکھا یاہے۔ پھر اس میں خوب مبالغہ کیا ہے اور لاکھوں کروڑوں نیکیوں تک اس کا ثواب پہنچادیا ہے۔ یہ سب باتیں انکل پچو ہیں اور ایسے معاملے میں مداخلت ہے جس کا علم صرف قرآن وحدیث سے ہی ہوسکتا ہے۔ (۱۴) وہ کہتا ہے کہ نبی‘ رسول اور ولی مرنے کے عبد قبر میں ایک مقررہ مدت تک ٹھہرتے ہیں اور یہ مدت ان کے درجات اور مراتب کے فرق کی بنیاد پر کم وبیش ہوتی ہے، اس کے بعد وہ جسم سمیت قبروں سے باہر آجاتے ہیں اور اسی طرح زندہ ہوتے ہیں جس طرح مرنے سے پہلے تھے۔ البتہ عام لوگ انہیں دیکھ نہیں سکتے، جس طرح ہمیں فرشتے نظر نہیں آتے حالانکہ وہ زندہ ہیں۔ (۱۵) اس کا دعویٰ ہے کہ اذکار اور وظائف کی مجلسوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم جسموں سمیت حاضر ہوتے ہیں۔‘‘ یہ تمام باتیں اور اس قسم کی دوسری باتیں جب اسلام کے اصولوں کی روشنی میں پرکھی جائیں تو وہ شرک‘ الحاد‘ اللہ