کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 219
بھی اپنی حد سے تجاوز کرکے دوسرے کی حدود میں داخل نہیں ہوتا کیونکہ ان کے مابین ایک رکاوٹ ہے اور یہی برزخیت عظمیٰ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے۔ تمام کائنا ت اس لئے ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حجابیت کے تحت موجود ہے اور جلال الٰہی کی تجلیات سے نبی علیہ السلام کے پردے میں ہے۔ اگر کائنات بلا حجاب ظاہر ہوجائے تو آنکھ جھپکنے میں سب کچھ جل کر عدم محض رہ جائے۔ تو الوہیت اپنی حدود میں قائم ہے اور مخلوقات اپنی حدود میں۔ یہ دونوں آپس میں ملتے ہیں اور نہ مختلط ہوتے ہیں کیونکہ ان کے درمیان برزخیت عظمیٰ حائل ہے۔ ’’وہ تجاوز نہیں کرتے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی دوسرے سے نہیں جاملتا۔‘‘ یہاں تک حضرت صاحب کا کلام خود ان کے الفاظ میں ہے جو انہوں نے ہمیں زبانی لکھوایا اور میں نے حضرت صاحب سے نبی علیہ السلام کے دائرہ کے متعلق سوال کیا تو حضرت صاحب نے فرمایا ’’وہ سعادت کا دائرہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہے: ﴿اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ (یونس۱۰؍۶۲) ’’خبردار! اللہ کے ولیوں پر نہ کوئی خوف ہے نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘ بوصیری نے فرمایا: ’’ولن تری من غیر منتصر‘‘ ’’اس کا مطلب ہے کہ جو کوئی نبی علیہ السلام سے مدد نہیں لیتا، اللہ کی ولایت میں اس کا کوئی حصہ نہیں…‘‘ یہ ایک اور آفت ہے۔ آیات قرآنی سے مذاق اور تحریف معنوی کی آفت۔ یعنی آیات کی ایسی تشریح جس کی تائید عربی زبان سے بھی نہیں ہوتی‘ عقل سلیم اس سے انکار کرتی ہے اور عقل مند ایسی باتوں کو ایک خندۂ استہزاء کا مستحق سمجھتے ہیں۔ عمر بن سعید فوتی لکھتا ہے ’’ایک رات شیخ احمد تیجانی نے مجلس میں‘‘ سید محمد غالی کہاں ہیں؟ آپ کے ساتھیوں نے بلند آواز سے پکارنا شروع کردیا ’’سید محمد غالی کہاں ہیں؟ جس طرح لوگوں میں رواج ہے کہ جب کوئی بزرگ کسی کو بلاتا ہے تو وہ آوازیں دینے لگتے ہیں۔ جب سید محمد غالی شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا ’’میرے یہ دونوں قدم اللہ کے ہر ولی کی گردن پر ہیں۔‘‘ سید محمد غالی حضرت صاحب سے نہیں ڈرتے تھے کیونکہ آپ کے بڑے احباب اور امراء میں سے تھے۔ انہوں نے عرض کی ’’حضور! آپ صحو اور بقا کی کیفیت میں ہیں یا سکر اور فنا کی حالت میں؟ حضرت صاحب نے فرمایا ’’الحمد للہ! میں صحو اور بقا کی کیفیت اور پوری عقل کی حالت میں ہوں۔‘‘ انہوں نے عرض کی: ’’آپ نے رو وہی بات ارشاد فرمادی جو سیدی عبدالقادر رضی اللہ عنہما نے ارشاد فرمائی تھی کہ: ’’میرا یہ قدم اللہ کے ہر ولی کی گردن پر ہے۔‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا: ’’انہوں نے بھی صحیح فرمایا تھا‘‘ ان کامطلب اپنے زمانے کے اولیاء سے تھا۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ میرے یہ دونوں قدم آدم علیہ السلام سے نفخ صور (قیام قیامۃ) تک ہر ولی کی گردن پر ہیں۔‘‘ میں نے عرض کی: ’’آقا! اگر آپ کے بعد کسی اور نے بھی ایسی بات کہی تو پھر آپ کا کیا ارشاد ہے؟ تو حضرت صاحب نے فرمایا: میرے بعد کوئی شخص یہ بات نہیں کہے گا۔‘‘ میں نے عرض کی: ’’آقا! آپ نے تو اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کو محدود کر دیا۔ کیا اللہ اس بات پر قادر نہیں کہ کسی کو آپ سے بھی زیادہ فیض‘ تجلیات‘ انعامات‘ معرفت‘ علوم‘ اسرار، ترقیاں اور احوال عطا فرمادے؟ تو کیا آپ نے فرمایا: کیوں نہیں؟ وہ اس پر قادر ہے بلکہ اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا، کیونکہ اس نے ایسا کرنے کا ارادہ نہیں فرمایا۔ کیا اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ کسی شخص کو نبی بنا کر مخلوق کی طرف مبعوث فرمادے اور اسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مقامات وانعامات دے دے؟ میں نے عرض کی وہ قادر ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا کیونکہ ازل سے اس نے یہ ارادہ نہیں فرمایا۔‘‘ اس پر حضرت صاحب نے فرمایا (اللہ ان سے راضی ہو اور انہیں راضی کرے اور ان کے طفیل