کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 218
عربی الفاظ کا مطلب نہیں جانتے۔ تاہم تلاوت کرنے ولا شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور توجہ سے اس کلام کو سنتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو قرآن سنا رہے ہیں جس کا مطلب وہ نہیں جانتا۔ یہ شخص بھی پہلے دو درجات کے ساتھ ہی متصل ہے۔ لیکن وہ ان سے بہت بہت کم درجے پر ہے۔ چوتھا درجہ اس شخص کا ہے جو قرآن پڑھتا ہے۔ خواہ مطلب سمجھتا ہو یا نہ سمجھتا ہو اور وہ اللہ کی نافرمانی کی جرأت رکھتا ہے، کسی برے کام سے نہیں رکتا۔ ایسے شخص کے حق میں تلاوت افضل نہیں، وہ جتنا زیادہ قرآن پڑھے گا، اسی قدر اس کے گناہوں میں اضافہ ہوگا اور اسی قدر اس کی تباہی زیادہ ہوگی۔ اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے: ﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ فَاَعْرَضَ عَنْہَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَہُوْہُ وَ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا وَ اِنْ تَدْعُہُمْ اِلَی الْہُدٰی فَلَنْ یَّہْتَدُوْٓا اِذًا اَبَدًا﴾ (الکھف۱۸؍۵۷) اور یہ فرمان الہٰی ہے: ﴿ وَیْلٌ لِّکُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ٭ یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰہِ تُتْلٰی عَلَیْہِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَکْبِرًا کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْہَا فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ٭ وَاِِذَا عَلِمَ مِنْ اٰیٰتِنَا شَیْئًا اتَّخَذَہَا ہُزُوًا اُوْلٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ مِنْ وَّرَآۂ مْ جَہَنَّمُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْہُمْ مَّا کَسَبُوْا شَیْئًا وَّلَا مَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَآئَ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ (الجاثیۃ۴۵؍۷۔۱۰) اس کے بعد کہتا ہے: ’’جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ عارف جانتا ہے کہ عوام کے طریق میں ایک پردہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اسرار کو چھپا رکھا ہے اور قرآن کے اسرار اور اہل خصوص کے ذوق کو عوام کے حس اور عقل کے اطوار سے ماوراء رکھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارادہ یہی ہے کہ اسے مخلوقات میں سے صرف بلند خواص پر ہی ظاہر کیا جائے… اے بدکار بندے! اگر میں لوگوں کو تیری برائیوں پر مطلع کردوں تو تجھے سنگسار کردیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’تیری عزت نے کہا: ایسا نہ کرنا، تو وہ خاموش ہوگئے۔‘‘ یہاں تک وہ کلام ہے جو ہمیں شخ ابو العباس تیجانی نے خود لکھوایا۔ الجواہر کے صفحہ ۱۸۳ پر علی حرازم نے دوبارہ احمد تیجانی سے اللہ تعالیٰ کی (بقول اس کے) دلی لگی کاذکر کیا گیا ہے۔‘‘ علی حرازم لکھتا ہے ’’میں نے حضرت صاحب سے اس آیت کا مطلب پوچھا: ﴿مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ ٭بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَا یَبْغِیَانِ﴾ (الرحمن۵۵؍۱۹۔۲۰) ’’اس نے دو سمندر چلائے جو ملتے ہیں اور ان کے درمیان آڑ ہے جس کی بنا پر وہ حد سے تجاوز نہیں کرتے۔‘‘ حضرت صاحب نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’دو سمندروں سے مراد ایک تو بحر الوہیت اور وجود مطلق کا سمندر ہے اور دوسرا مخلوقات کا سمندر ہے۔ اسی پر ’’کن‘‘ کا کلمہ واقع ہوا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کے درمیان برزخ (آڑ‘ رکاوٹ‘ پردہ) ہیں اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخیت نہ ہوتی تو جلال ذا ت الٰہی کی ہیبت سے بحر مخلوقات مکمل جل جاتا۔‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا ’’بحر مخلوقات ہی بحر اسماء وصفات ہے۔ کائنات میں جو ذرہ بھی نظر آتا ہے اس پر اللہ کی صفات میں سے کسی اسم یا صفت کا ظہور ہے اور بحر الوہیت سے مراد ذات مطلق کا بحر ہے جس کی کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی اور الفاظ اس کا اظہار نہیں کرسکتے۔ یہ دونوں سمندر آپس میں ملتے ہیں کیونکہ ان کے درمیان انتہائی قرب واقع ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: ﴿وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الواقعۃ۵۶؍۸۵) ’’تم سے زیادہ ہم اس مرنے والے کے قریب ہوتے ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے۔‘‘ لیکن یہ دونوں سمندر یکجان نہیں ہوتے۔ الوہیت خلق میں نہیں مل جاتی اور خلق الوہیت میں نہیں جاملتی‘ ان میں سے کوئی