کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 217
وہ ہیں جن کے متعلق جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’خیر القرون‘‘ ہونے کی گواہی دی ہے۔ اس کے بعد یہی مصنف کہتا ہے:
’’بعض افراد جنہیں علم سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اہل اللہ کے فیض سے کوئی واسطہ ہے، وہ ہم پر دو اعتراض کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ جناب شیخ نے اپنی تعریف خو دکی ہے اور اپنے آپ کو پاک صاف قرار دیا ہے اور اس قسم کا دعویٰ کرنا ایک مذموم انبیائے کرام فیض یاب ہوتے ہیں اور انبیاء کرام کی ذات مقدسہ سے جو فیض جاری ہوتے ہیں، وہ سب میری ذات حاصل کرتی ہے اور تخلیق عالم سے قیامت تک تمام مخلوقات پر یہ فیض میری طرف سے تقسیم ہوتے ہیں۔ اس میں صحابہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح شیخ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے افضل ثابت ہوتے ہیں اور یہ دعویٰ باطل ہے۔ اسی طرح (شیخ) کا یہ قول (بھی تنقید کی زد میں آتا ہے) کہ ’’تخلیق عالم کے قیامت سے قیامت تک کوئی ولی ہمارے سمندر کے علاوہ کہیں سے پی سکتا ہے، نہ اسے پلایا جاتاہے۔‘‘ اسی طرح حضرت صاحب کا یہ فرمان ہے کہ جب اللہ تمام مخلوق کو میدا ن حشر میں جمع کرے گا تو ایک منادی بلند آواز سے اعلان کرے گا، جسے میدان محشر میں موجود تمام لوگ سنیں گے ’’اے محشر والو! یہ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک اور میری روح اس طرح ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک سے حاصل ہوتا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ حضرت صاحب نے فرمایا: ’’میرے قدم آدم سے قیامت تک کے تمام اولیاء کی گردنوں پر ہیں۔‘‘ اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا ’’آخرت میں اللہ کے ہاں ہمارا وہ مقام ہے جس تک کوئی ولی نہیں پہنچ سکتانہ اس کے قریب پہنچ سکتا ہے خواہ وہ عظیم الشان ولی ہو یا معمولی درجہ کا ولی۔ صحابہ سے لے کر قیام قیامت تک اولیاء میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو ہمارے مقام تک پہنچ سکے۔ اس کے علاوہ حضرت صاحب نے فرمایا: ’’سب لوگوں کی عمریں بے کار ضائع ہوئیں سوائے ان لوگوں کے جو ’’الفاتح لما أغلق‘‘ والا وظیفہ پڑھتے ہیں، انہیں دنیا اور آخرت کا نفع حاصل ہوگیا۔ اس وظیفہ میں وہی شخص اپنی عمر صرف کرتا ہے جو خوش نصیب ہو۔‘‘
علی حرازم نے اس مسئلہ پر بات کرتے ہوئے کہ تلاوت قرآن افضل ہے یادرود شریف۔ احمد تیجانی سے یہ قول نقل کیا ہے کہ تلاوت قرآن تو اس لحاظ سے افضل ہے کہ وہ اللہ کا کلام ہے اور ان علوم ومعارف اور آداب کے لحاظ سے بھی جو قرآن سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد لکھتا ہے ’’یہ دہ حیثیتیں ایسی ہیں کہ ان کے لحاظ سے قرآن کی فضیلت تک وہی صاحب معرفت پہنچ سکتا ہے جس کے سامنے حقائق کے سمندر منکشف ہوچکے ہوں، وہ ہمیشہ ان کے گہرے پانی میں تیرتا رہتا ہے۔ اس مرتبہ والے کے حق میں ہی قرآن تمام اذکار سے افضل ہوتا ہے کیونکہ اسے دو فضیلتیں حاصل ہوتی ہیں۔ اس لئے کہ وہ براہ راست صریح طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات مقدسہ سے قرآن سنتا ہے اور یہ کیفیت ہر وقت نہیں ہوتی بلکہ صرف اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ عالم استغراق میں فنا فی اللہ کی کیفیت میں ہوتا ہے۔
تلاوت قرآن کا دوسرا درجہ اس سے ادنیٰ ہے۔ وہ یہ ہے کہ قرآن کے ظاہری معانی سے واقف ہو اور جب تلاوت کی جائے تو اس طرح توجہ سے سنے گویا کہ وہ اللہ سے براہ راست سن رہا ہے اور حدود کا خیال رکھے۔ تو یہ بھی پہلے درجے سے متصل ہی ہے لیکن اس سے ادنیٰ ہے۔
تیسرا درجہ ا س شخص کا ہے جو قرآن کے معانی ومطالب سے بالکل واقف نہیں، لیکن وہ اس کے الفاظ پڑھتا چلا جاتا ہے اسے ان علوم ومعارف کا کچھ پتہ نہیں ہوتا جو قرآن سے معلوم نہیں ہوتے ہیں۔ جس طرح اکثر عجمی عوام کا حال ہے کہ وہ