کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 216
کے تمام اسمائے مبارکہ کا ذکر کیا ہے تو سب ثواب اس اسم کے ثواب کا نصف ہوگا۔‘‘ عمر بن سعید فونی نے کتاب الرماح میں لکھا ہے کہ ’’اولیاء اللہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیداری میں دیکھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں اور جس مجلس میں چاہتے ہیں اپنے جسم اطہر اور روح مبارک کے ساتھ تشریف لے جاتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم زمیں کے ہر حصے میں ملکوت میں تصرف کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں وفات سے پہلے تھے، کوئی تبدیلی نہیں آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نظروں سے اس طرح پوشیدہ ہیں جس طرح فرشتے جسم سمیت زندہ ہونے کے باوجود آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو نبی علیہ السلام کی زیارت کرانا چاہتا ہے اس کے سامنے سے پردے ہٹا دیتا ہے اور وہ بندہ نبی علیہ السلام کو اسی حالت میں دیکھتا ہے جس حالت میں نبی علیہ السلام (وفات سے پہلے) تھے۔ پھر اس نے اس فصل می ں بہت سے صوفیوں کے اقوال نقل کئے ہیں جن میں اس قسم کی حکایتیں ہیں کہ اولیاء نے بیداری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور اس فصل میں بہت سی عجیب وغریب باتیں لکھی ہیں کہ انبیاء اور قطب کعبہ کے پاس جسموں سمیت مجلس فرماتے ہیں اور مخلوقات کے بعد اپنی قبروں میں ایک مقررہ مدت تک ٹھہرتے ہیں اور یہ مدت ان کے درجات ومراتب کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔ اس نے یہ فصل ان الفاظ پر ختم کی ہے: ’’جب آپ ان تمام اشیاء پر غور کریں گے جو ہم نے ابتدائے فصل سے یہاں تک بیان کی ہیں تو آپ کے سامنے بالکل واضح ہوجائے گا اور اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی کہ جناب القطب المکتوم والبرزخ المختوم شیخنا احمد بن محمد تیجانی (اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے سمندر سے عظیم ترین برتن کے ساتھ پلائے اور ہمیں جنت میں ان کا پڑوس نصیب کرے۔ (اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو اور راضی کرے اور ان کے طفیل ہم سے بھی راضی ہوجائے) جناب سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خواب میں نہیں، بلکہ بیداری میں ملاقات فرماتے تھے، وہ (اللہ ان سے راضی ہوا اور انہیں راضی کرے اور ان کے طفیل ہم سے راضی ہوجائے) اپنے نانا سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست حضور علیہ السلام کی زبان سے اخد فرماتے تھے۔ (اللہ ان سے راضی ہو انہیں راضی کرے اور ان کے طفیل ہم سے راضی ہوجائے اور دنیا، برزخ اور آخرت میں ہمیں ان کی برکات سے فیض یاب فرمائے) اور نبی علیہ السلام خلفائے اربعہ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت اپنے جسموں اور روحوں کے ساتھ ’’جوھرۃ الکمال‘‘ کی قرات کے وقت اور ہر نیکی کی مجلس میں اور جس مقام پر چاہیں تشریف لاتے ہیں۔ اس بات کا انکار صرف جاہل غنی طالب علم یا سرکش بدبخت حاسد ہی کرتے ہیں اور ہدایت تو اسی کو ملتی ہے جسے اللہ تعالیٰ کا ہدایت دے۔‘‘ عمر بن سعید فونی نے اپنے پیر احمد بن تیجانی کی بڑائی بیان کرنے میں انتہائی مبالغہ آمیزی سے کام لیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ خاتم اولالیاء اور سید العارفین ہیں اور کوئی ولی کسی نبی سے ان کے واسطے کے بغیر کسی قسم کا فیض حاصل نہیں کرسکتا، لیکن اس ولی کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ کہتا ہے: ’’چھتیسویں فصل ہمارے شیخ رضی اللہ عنہما کی فضیلت کے بارے میں اور اس چیز کے بیان میں کہ وہ خاتم الاولیاء‘ سید العارفین‘ صدیقین کے امام‘ قطبوں اور غوثوں کو فیض پہنچانے والے ہیں اور وہ قطب مکتوم اور برزخ مختوم ہیں جو نبیوں اور ولیوں کے درمیان واسطہ ہیں، کوئی ولی‘ خواہ عظیم شان والا ہو یا معمولی مقام ولا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت صاحب رضی اللہ عنہما کے واسطہ کے بغیر فیض حاصل نہیں کرسکتا اور کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اس ولی کو اس واسطہ کا احسا س نہیں ہوتا۔‘‘ ان الفاظ سے صریح شرک‘ کھلا کھلا جھوٹ اور ناجائز غلو بالکل ظاہر ہے۔ اس نے اپنے شیخ کو بعد کے زمانوں کے اولیاء تو ایک طرف صحابہ کرامf‘ تابعینj سے بھی بلند مرتبے والا ثابت کردیا ہے۔ حالانکہ یہ تین طبقات