کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 213
’’کیونکہ شیخ کے مآثر کا شمار نہیں ہوسکتا اور ان کے مناقب کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا، ان کی خبریں وہاں وہاں پہنچ کر مشہور ہوچکی ہیں جہاں دن اور رات آتے جاتے ہیں، یہ بے حد اور بے شمار ہیں۔ ہم تو ان میں سے چند ایک ہی بطور نمونہ ذکر کر سکتے ہیں۔ ورنہ ان کے بیان سے تو قلم اور کاغذ بھی تھک جائیں اور ان کو تلاش کرنے میں ہاتھ اور پاؤں جواب دے جائیں…‘‘ جواہر المعانی میں مصنف نیجن افراد کا کلام نقل کیاہے، ان کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو ان کے سلسلہ سے منسلک لوگوں میں، ان کی جماعت میں شمار ہونے والوں میں اور ان کی اور ان کے محبت کرنے والوں کی قدر جاننے والوں میں شامل کرے، بجاہ محمد وآلہ وصحبہ۔ کیونکہ ان کا دامن پکڑنے والا اپنی امید تک پہنچ جاتا ہے اور اس کا مقصد جلد حاصل ہوجاتا ہے۔ پس اے محبت رکھنے والے! جب ان کا ذکر ہو تو عاجزی کا ہات پھیلانا اور ان کے دروازے پر ذلیل بن کرکھڑا ہو اور بزبان احتیاج عرض کر ’’اپنے حقیر کمزور غلام پر رحم کیجئے، اگر وہ ظلم اور کوتاہی کا مرتکب ہو‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان سے ارشاد فرمایا ’’میں شکستہ دلوں سے قریب ہوں…‘‘ آگے جاکر لکھتا ہے: ’’یہ نہیں ہوسکتا کہ جو ان کا دامن پکڑے وہ ا س کا خیال نہ رکھیں اور جو ان کا قرب اختیار کرے اسے چھوڑ دیں، کیونکہ ان کے ہاں آنے والا بن بلایا مہمان بھی خالی نہیں لوٹایا جاتا اور اسے ان کے دروازے سے روکا نہیں جاتا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے؎ ھُمْ سَادَتِي ھُمْ رَاحَتِي ھُمْ مُنیَتِي أَھْلُ الصَّفَا حَاُوا الْمَعَالي الْفَاخِرَۃ حَشًّا لِمَنْ قَدْ حَبَّھُمْ أَوْزَادَھُمْ أَنْ یُھْمِلُوہُ سَادَتِي فِي الْأخِرَۃ ’’وہ میرے آقا ہیں، میری راحت ہیں، میری تمنا ہیں، اہل صفا ہیں جنہیں قابل فخر بلندیاں حاصل ہیں جو ان سے محبت کرے یا ان کی زیارت کرے تو یہ نہیں ہوسکتا کہ میرے آقا تغافل کر کے اسے چھوڑ دیں۔‘‘ ایک اور مقام پر لکھا ہے: ’’بعض لوگو ں پر ان کے ضعف کی وجہ سے حال غالب آجاتا ہے اور بعض لوگوں پر واردات کی قوت کی وجہ سے غالب آجاتا ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ جس پر اس کے ضغف کی وجہ سے حال غالب ہوتا ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ وہ دوسرے کو صاحب حال نہیں بناسکتا، اس کا حال اس کی ذات تک محدود ہوتا ہے اور جس پر حال اس لئے غالب آتا ہے کہ حال زیادہ قوی تھا، اس کی علامت یہ ہے کہ وہ دوسروں کو بھی فیض یاب کرتا ہے۔ اس سے زیادہ قوی حال یہ ہے کہ جس کو صاحب حال بنایا ہے اس سے حال واپس بھی لے سکے اور یہی وہ ’’کامل‘‘ ہے جو دیتا بھی ہے اور چھین بھی لیتا ہے ویسے یہ سب کچھ فضا وقدر کے تحت ہے۔ ہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ بعض بھائیوں کے ساھت ان کے سوائے ادب کی وجہ سے کسی اور سبب سے یہ معاملہ کیا گیا…‘‘ الخ مندرجہ بالا عبارتوں میں بے حد غلو اور واضح شرک اس حد تک پایا جاتا ہے کہ وضاحت کی ضرورت نہیں اور یہ باتیں کہنے والا حد سے اتنا بڑھ گیا ہے کہ اس کے کلام کی کوئی تاویل بھی نہیں کی جاسکتی‘ نہ اس کی طرف سے کوئی قابل قبول عذر پیش کیا جاسکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ باتیں کہتے وقت قائل اس کیفیت میں تھا کہ اس کی عقل اس کا ساتھ چھوڑ گئی تھی اور وہ ایسی حالت میں تھا جو قابل تعریف نہیں ہے۔ لیکن اس کا احترام کرنے والے یہ رائے نہیں رکھتے، نہ یہ بات قبول کرتے ہیں بلکہ وہ مذکورہ بالا کیفیات کو اس کی خوبی اور کرامات تصور کرتے ہیں۔ اس کے بعد مصنف نے احمد تیجانی کے متعلق لکھا ہے کہ ان کے کلام کا اصل موضوع فنا اور وحدۃ الوجود ہے اور لکھا ہے کہ ولی اگر اپنے وجود کا احسا س رکھتا ہے تو یہ شرک سمجھا جائے گا۔