کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 212
علی حرازم کہتا ہے: سیدنا (احمد تیجانی) اسے شیخ واصل کی حقیقت کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’شیخ واصل (خدارسیدہ یعنی پہنچا ہوا پیر) وہ ہوتا ہے جس کے سامنے سے درمیانی پردے ہٹ جائیں اور حضرت الٰہیہ میں کمال درجہ کی عینی نظر اور یقینی تحقیق حاصل ہوجائے۔ کیونکہ اس کا کام ابتدائی مرحلہ ’’محاضرہ‘‘ ہے یعنی کثیف پردے کے پیچھے سے حقائق کا بلا حجاب ظاہر ہوجانا لیکن اس می ذاتی خصوصیت باقی رہتی ہے۔ اس کے بعد ’’معاینہ‘‘ ہے یعنی حقائق کااس طرح مطالعہ کرنا کہ حجاب باقی رہے نہ خصوصیت او رنہ غر اور نہ غیریت کے عینا یا اثراً باقی رہے۔ یہ مقام ہے پس جانے، مٹ جانے اور فنا الفنا کرنا کہ حجاب باقی رہے نہ خصوصیت اور نہ غیریت عینا یا اثراً باقی رہے۔ یہ مقام ہے پس مٹ جانے، مٹ جانے اور فنا الفنا کا، یہاں تو حق کا معیاینہ فی الحق للحق باالحق ہوتاہے۔ فَلَمْ یَبْقَ أِلاَّ اللّٰہُ لاَ شَئيئَ غَیْرُہُ فَمَا ثَمَّ مَوْصُولٌ وَمَا ثَمَّ وَاصِلٌ ’’پس اللہ کے سوا کچھ بھی باقی نہ رہا، اس کے سوا کچھ بھی نہیں نہ صاحب وصل نہ وہ جس سے وصل ہوا۔‘‘ اس کے بعد ’’حیات‘‘ کا درجہ ہے۔ یعنی مراتب کو اس طرح الگ الگ پہچاننا کہ ان کی تمام خصوصیات‘ تقاضے، لوازم اور جن اشیاء کے وہ مستحق ہیں معلوم ہوجائیں اور یہ معلوم ہو کہ ہر مرتبہ کس حضوری سے تعلق رکھتا ہے؟ وہ کیوں پایا جاتاہے؟ اس سے کیا مقصود ہے؟ اور اس کا کیا نتیجہ کیا ہوگا؟ یہ وہ مقام ہے جاں بندے کو خود ذات کا اور اس کی تمامم خصوصیات واسرار کا مکمل علم حاصل ہوجاتا ہے اور اسے یہ معرفت حاصل ہوتی ہے کہ ’’حضرت الٰہیہ‘‘ کیا ہے؟ اور وہ کس عظمت‘ جلال‘ کمال اور صفات علیا سے متصف ہے۔ اس کو ذوقی طور پر معرفت اور یقینی معاینہ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اس صفت کے ساتھ ساتھ اسے حق کی طرف سے اذن خاص کا کمال حاصل ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو ہدایت دے اور اسے ان پر یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ حضرت الٰہیہ کی طرف ان کی رہنمائی کرے۔ یہی وہ شخص ہے جو تلاش کئے جانے کا مستحق ہے۔ حضرت اوب حجیفہ رضی اللہ عنہما کی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے یہی شخص مراد ہے۔ ارشاد ہے: ’’علماء سے سوال کر، حکماء کے ساتھ مل جل کر رہ اور کبراء کی صحبت اختیار کر۔‘‘ اسی مرتبہ والے کو ’’کبیر‘‘کہا جاتا ہے۔ جب مرید کو اس صفت کا حامل پیر مل جائے تواس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اس کے سامنے اس طرح رکھے جس طرح مردہ غسل دینے والے کے سامنے ہوتا ہے۔ اس کا اختیار ہے نہ ارادہ اور نہ وہ کسی کو کچھ دے سکتاہے نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ مرید کی نیت یہ ہونی چاہئے کہ پیر اسے اس مصیبت سے نجات دے کر جس میں وہ غرق ہے، اس درجہ صفاء کے کمال تک پہنچادے کہ وہ ہر چیز سے منہ موڑ کر صرف حضرت الٰہیہ کا مطالعہ کرسکے۔ اسے چاہئے کہ اپنے قسم کے سوال کرنے سے پرہیز کرے کیوں؟ کیسے؟ کس وجہ سے؟ کس مقصد کے لئے؟ یہ سوالات ناراضگی اور راندۂ درگاہ ہوجانے کا سبب بن جاتے ہیں۔ اسے یہ عقیدہ رکھنا چاہئے کہ ا سکی مصلحت کو اس کی نسبت اس کا شیخ زیادہ جانتا ہے۔ وہ اسے جس راستے پر بھی چلاتا ہے وہ اللہ کے لئے، اللہ کے ساتھ یہ کام کررہا ہوتا ہے اور اس طرح وہ نفس کو تاریکی اور خواہش سے پاک کررہا ہوتاہے… الخ احمد بن محمد تیجانی کے مرید اس کے متعقل کس قدر غلو کرتے ہیں، اس کی ایک مثال علی حراز کی یہ عبارت ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’تجھے معلوم ہونا چاہئے۔ اللہ تجھ پر رحم کرے کہ میں سیدنا وشیخنا ومولانا احمد تیجانی رحمہ اللہ کے تمام مآثر، مناقب‘ نشانات اور کرامات ابد الآباد تک بیان نہیں کرسکتا۔ کیونکہ جب بھی میں ان کا کوئی شرف بیان کرتا ہوں مجھے دوسرا شرف نظر آجاتا ہے اور جب میں کسی کرامت کو یاد کرتا ہوں اس سے بڑی کرامت میرے سامنے آجاتی ہے…‘‘ آگے کہتاہے