کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 183
شخص کہتاہے ’’مدد یا سید بدوی‘‘ یا کہتا ہے ’’مدد یا سیدہ زینب‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمیں کچھ خیر عطا فرمائیے اور ہماری تکلیفیں دور کردیجئے اور بلائیں ٹال دیجئے، ا س طرح کہنا شرک اکبر ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ کائنات کے تمام معاملات وہی چلاتا ہے اور مختلف چیزوں کو اسی نے بند وں کے لئے مسخر کر رکھا ہے۔ اس کے بعد فرمایا: ﴿ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُ وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ٭اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآئَ کُمْ وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ وَ لَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْر﴾ (الفاطر۳۵؍۱۳۔۱۴) ’’یہ ہے اللہ،تم سب کا پالنے والا، بادشاہی اسی کی ہے اور اس کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی کے باریک سے چھلکے کے بھی مالک نہیں، اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے ہی نہیں، اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو تمہاری درخواست قبول نہیں کریں گے اور قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کریں گے۔ (یعنی کہیں گے کہ ہمیں تو معلوم ہی نہیں کہ یہ لوگ پکارتے اور ہم سے مدد مانگتے رہے ہیں) اور آپ کو خبر رکھنے والے (اللہ تعالیٰ) کی طرح کوئی اور یقینی خبر نہیں دے سکتا۔‘‘ اس آیت میں ان کے پکارنے کو شرک کہا گیا ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ﴿وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَدْعُو مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَا یَسْتَجِیبُ لَہٗ اِِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَہُمْ عَنْ دُعَاۂ مْ غَافِلُوْنَ ٭وَاِِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَہُمْ اَعْدَائً وَّکَانُوْا بِعِبَادَتِہِمْ کٰفِرِیْنَ﴾ (الاحقاف۴۶؍۵۔۶) ’’اس سے زیادہ گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ کے سوا ایسے (معبود) کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کرے۔ وہ (معبود) تو ان (پکارنے والوں) کے پکارنے سے بے خبر ہیں اور جب لوگ اٹھائے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن بن جائیں گے اور ان کی عبادت کا انکار کردیں گے۔‘‘ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اللہ کے سوا جن انبیاء واولیاء کو پکارا جاتا ہے وہ پکارنے والوں کی نداؤں سے بے خبر ہیں اور کبھی ان کی درخواست قبول نہیں کرسکتے۔ قیامت کے دن وہ ان پکارنے والوں کے دشمن بن جائیں گے اور اس بات سے انکار کردیں گے کہ ان مشرکوں نے کبھی ان بزرگوں کی پوجا کی ہو۔(یعنی صاف کہہ دیں گے کہ تم نے ہماری پوجا نہیں کی تھی‘ ہمیں بالکل علم نہیں۔) ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ﴿اَیُشْرِکُوْنَ مَا لَا یَخْلُقُ شَیْئًا وَّ ہُمْ یُخْلَقُوْنَ٭وَ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ لَہُمْ نَصْرًا وَّ لَآ اَنْفُسَہُمْ یَنْصُرُوْنَ٭وَ اِنْ تَدْعُوْہُمْ اِلَی الْہُدٰی لَا یَتَّبِعُوْکُمْ سَوَآئٌ عَلَیْکُمْ اَدَعَوْتُمُوْہُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ٭اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ فَادْعُوْہُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْن﴾ (الاعراف۷؍۱۹۱۔۱۹۴) ’’کیا یہ لوگ ان کو شریک کرتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ خود پیدا کئے جاتے ہیں۔وہ ان (مشرکوں) کی مدد نہیں کرسکتے نہ وہ خود اپنی مدد کرتے ہیں۔ اگر تم ان (مشرکوں) کو ہدایت کی طرف بلاؤ تو تمہاری پیروری نہیں کرتے، تمہارے لئے برابر ہے کہ انہیں پکارو یا خاموش رہو۔ (اے مشرکو!) جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں، تو اگر تم سچے ہو تو وہ تمہاری درخواست قبول کریں۔ (پھر کیوں وہ تمہاری حاجت روائی نہیں کرتے؟‘‘) دوسرے مقام پر فرمایا: