کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 181
عَلَیْھِمْ السَّکِیْنَۃُ وَغَشِیَھُمْ الرَّحْمَۃُ وَحَقَّتْھُمْ الْمَلاَئِکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیمَنْ عِنْدَہُ) ’’جو لوگ اللہ کے کسی گھر میں جمع ہو کر قرآن مجید کی تلاوت کرتے او راس کا مذاکرہ کرتے ہیں ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، فرشے ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور ان کا ذکر خیراللہ تعالیٰ ان (مقرف فرشتوں) میں کرتا ہے جو اس کے پاس ہیں۔‘‘ [1] جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر بھی اس کامطلب سمجھایا ہے۔ بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تلاوت فرماتے تھے اور مجلس میں حاضر صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم سنتے تھے، اس طرح نبی علیہ السلام انہیں تلاوت اور ترتیل کی تعلیم دیتے تھے، بسا اوقات آپ کسی صحابی کو قرآن پڑھنے کا حکم فرماتے کیونکہ آپ کو قرآن سننا بہت پسند تھا۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ’’مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ‘‘ انہوں نے عرض کی: حضور! میں آپ کو سناؤں حالانکہ آپ پر وہ نازل ہوا ہے؟ فرمایا: (فَأَنِّیْ أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَہُ مِنْ غَیْرِي) ’’ہاں! میرا جی چاہتاہے کہ کسی سے قرآن سنوں‘‘ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہما نے سورۃ النساء میں سے تلاوت شروع کی۔ جب اس آیت پر پہنچے ﴿فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآئِ شَہِیْدًا﴾ (النساء۴؍۴۱)[2] تو فرمایا، بس کرو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔‘‘[3] نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو وقفہ دے کر نصیحت کرتے تھے کہ اکتاہٹ پیدا نہ ہوجائے۔ مسجد وغیرہ میں ان کی رہنمائی کے لئے اور انہیں دین کی باتیں سکھانے کیلئے تشریف رکھتے تھے، کبھی کبھار انہیں متوجہ کرنے کیلئے یا کسی خاص نکتہ کی طرف توجہ مبذول کرنے کے لئے ان سے سوالات بھی کرتے تھے۔ پھر جب دیکتھے کہ وہ پوری طرح متوجہ ہیں اور جو اب سننے کا شوق بیدار ہوگیا ہے تو جواب ارشاد فرماتے۔ اس طرح وہ مسئلہ انہیں خواب یاد ہوجاتا اور اچھی طرح سمجھ میں آجاتا۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرماتھے، آپ کے ساتھ دوسرے لوگ بھی بیٹھے تھے کہ اچانک تین آدمی آگئے، ان میں سے دوجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( مجلس) کی طرف آگئے اور ایک واپس چلا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آکر وہ دونوں رکے۔ ایک کو (حاضرین کے) حلقہ میں جگہ نظر آئی‘ وہ وہاں بیٹھ گیا۔ دوسرا ان کے پیچھے بیٹھ گیا اور تیسرا تو واپس ہی چلا گیاتھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (زیر بحث مسئلہ پر بات کرکے) فارغ ہوئے تو فرمایا: (أَلاَ أُخْبِرُکُمْ عَنِ النَّفَرِ ثَلاَثَۃِ؟ أَمَّا أَحَدَھُمْ فَأوٰی أِلیٰ اللّٰہِ فأوٰاہُ اللّٰہ،وَأَمَّا الْآخِرُ فَاسْتَحْیَا اللّٰہُ مِنْہ،وَأَمَّا الْآخِرُ فَأَعْرَضَ فَأَعْرَضَ اللّٰہُ عَنْہُ) ’’میں تمہیں ان تین آدمیوں کی بات نہ بتاؤں؟ ایک نے اللہ کی طرف جگہ چاہی تو اللہ نے اسے جگہ دی۔[4]
[1] صحیح مسلم حدیث نمبر: ۲۶۹۹۔ [2] آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ’’اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے گواہ لائیں گے اور آپ کو ان پر گواہ لائیں گے؟،، [3] صحیح بخاری حدیث نمبر:۵۰۴۹۔ صحیح مسلم حدیث نمبر:۸۰۰۔ ابی داؤد حدیحث نمبر: ۳۶۶۸۔ ترمذی حدیث نمبر:۳۰۲۷۔ [4] یعنی وہ علمی مجلس میں آیا جس میں اللہ کی باتیں ہورہی تھیں، تو اسے ثواب ملا اور وہ الہ سے قریب ہوگیا۔