کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 178
﴿اِِنَّکَ مَیِّتٌ وَاِِنَّہُمْ مَیِّتُوْنَ﴾ (الزمر۳۹؍۳۰) ’’ (اے نبی) آپ بھی مرنے والے ہیں اور یہ (مخالفین) بھی مرنے والے ہیں۔‘‘ نیز ارشاد ہے: ﴿ثُمَّ اِِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوْنَ ٭ثُمَّ اِِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ﴾ (المومنون۲۳؍۱۵۔۱۶) ’’پھر تم اس کے بعد مرنے والے ہو، پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت سے پہلے قبروں سے نہیں نکلیں گے۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز ٭٭٭ فتویٰ (۳۵۶۰) قرآن وسنت کے خلاف کوئی عمل قبول نہیں سوال صوفیہ کے سلسلوں کے مشائخ مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ لوگوں سے وعدے لیتے ہیں۔ بیعت کرنے والا یہ وعدہ کرتا ہے کہ کبھی خیانت نہیں کرے گا۔ وہ اجتماعی طور پر ذکر کرنے کے لئے راتیں متعن کرلیتے ہیں۔ پھر حلقے بنا کر یا صفیں بنا کر بیٹھے ہوئے یا کھڑے ہوئے اللہ تعالیٰ کے خاص خاص ناموں کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ مثلاً ’’اللہ‘‘ یا ’’حی‘‘ ’’یا قیوم‘‘ یا ’’آۃ‘‘ اس دوران وہ دائی ں بائیں جھومتے ہیں۔ ان کے ساتھ دوسرے افراد کی ایک جماعت ہوتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں، یا دوسرے انبیائے کرام علیہ السلام یا اولیائے کرام کی تعریف میں ترنم کے ساتھ اشعار پڑھتے ہیں۔ عموماً اس دوران طبلے، دف اور دوسرے ساز بجائے جاتے ہیں۔ بعض حاضرین نقدی کی صورت میں نذرانہ بھی پیش کرتے ہیں۔ جسے ’’نقطہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ساز ہوتے ہیں نہ دف اور نہ نقطہ۔ پھر یہ نعد خواں یوں بھی کہتے ہیں: ’’یا حسین مدد‘ یا سیدہ زینب مدد‘ یا سید بدوی مدد‘ اے میرے نانا رسول ا للہ مدد! یا اولیاء اللہ مدد! بعض لوگ سید بدوی‘ یا جناب حسین‘ یا سیدہ زینب وغ؁رہ کے نام کی بکری یا نقد رقم کی نذر بھی مانتے ہیں، بعض اوقات جس بزرگ کی نذر مانی جاتی ہے، اس کے مزار پر مینڈھا ذبح کرتے ہیں اور اس بزرگ کی تعمیر کی قبر کے پاس رکھے ہوئے صندوق میں نذر کی رقم ڈالتے ہیں۔ براہ کرم یہ وضاحت فرمائیے کہ یہ سب کام جائز ہیں یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر فرمائے۔ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ وآلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: مسلمان مرد اور عورتیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے السام کے مطابق عقیدہ رکھنے اور عمل کرنے کا عہدوپیمان کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جو ہدایات دیں ان کی تعمیل کریں، یہ ہدایات قرآن مجیدش اور صحیح احادیث میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم اپنی اطاعت کے حکم کے ساتھ ہی دیا ہے بلکہ نبی علیہ السلام کیاطاعت کو اللہ نے خود اپنی اطاعت کو اللہ نے خود اپنی اطاعت قرار دیا ہے جیسا کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات سے ظاہر ہے۔ مثلاً ارشاد ربانی تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآئِ