کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 174
جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ وآلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: آپ نے صوفیوں کے جن سلسلوں اور وظائف کاذکر کیا ہے یہ سلسلے اور وظیفے سب نئی ایجاد اور بدعتیں ہیں۔ انہی میں سے تیجانیہ اور کتابیہ سلسلہ بھی ہے۔ ان کے اذکار وظائف میں سے صرف وہی اذِکار وغیرہ درست ہیں جو قرآن مجید اور صحیح احادیث کے مطابق ہوں۔[1] سوال میں کتانی کے بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنے اور مذکورہ سلام پڑھنے کے متعلق پوچھا گیا ہے تو یہ بالک بے اصل اور باطل قصہ ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت آپ کی وفات کے بعد کسی کو بیداری میں نہیں ہوسکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن ہی اپنی قبر مبارک سے باہر تشریف لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ثُمَّ اِِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوْنَ ٭ ثُمَّ اِِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ﴾ (المومنون۲۳؍۱۵۔۱۶) ’’پھر تم اس کے بعد مرجانے والے ہو۔ پھر قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُ عَنْہُ الأرْضُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) قیامت کے دن زمین سب سے پہلے مجھ پر سے پھٹے گی۔‘‘ [2] وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز ٭٭٭ فتویٰ (۶۴۳۳) صوفیانہ سلسلوں میں بدعات کا غلبہ ہے سوال آج کل صوفیوں کے جو سلسلے پائے جاتے ہیں، ان کے متعلق اسلام کا کیا حکم ہے؟ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ وآلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: صوفیوں کے سلسلوں میں بدعات غالب ہیں۔ ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ عبادات اور دسرے کاموں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہما کے طریقے پر عمل کریں اور عبدالرحمن الوکیل رحمہ اللہ کی کتاب ’’ھذہ ھی الصوفیہ‘‘ کا مطالعہ کریں۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز ٭٭٭
[1] طریقہ تیجانیہ کے متعلق سوالات ملاحظہ فرمائیں۔ [2] صحیح مسلم حدیث نمبر: ۲۲۷۸۔ سنن ابی داؤد حدیث نمبر: ۴۶۷۳، ترمذی حدیث نمبر: ۳۶۹۳۔ مسند احمد ج: ۱، ص:۲۸۱،۲۸۲،۲۹۵، ۲۹۶۔ ج: ۲، ص:، ۲۶۴، ۵۴۰۔ ج:۳، ۱۰، ۱۱، ۳۳، ۱۴۴، ۱۴۵۔