کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 173
کے کئے ہوئے کام یعنی قبر نبوی پر گنبد کی تعمیر کو دلیل بنائے۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز ٭٭٭ فتویٰ (۲۸۹۹) تصوف اور صوفی کی وضاحت تصوف کا کیا مطلب ہے؟ اسلام میں ا س کا کیا مقام ہے؟ مثلاً طریقہ تیجانیہ،قادریہ،شیعہ وغیرہ۔ نائیجیریا ان ’’طریقوں‘‘ کا مرکز بن گیا ہے۔ مثلاً طریقہ تیجانیہ میں ایک درود ہے جسے صلاۃ البکریۃ کہتے ہیں جو اس طرح شروع ہوتا ہے (اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدَنَا مُحَمَّدٍ الْفَاتِحِ لِمَا أُغْلِقَ…… اور ان الفاظ پر ختم ہوجاتاہے حَقَّ قَدْرِہِ وۃمِقْدَارِہِ الْعَظِیْم) اس درود کو بہت اونچا مقام دیا جاتا ہے حتیٰ کہ درود ابراہیمی سے بھی افضل سمجھا جاتاہے۔ یہ بات ان کی کتاب ’’جواھرالمعانی‘‘ جز اول صفحہ ۱۳۶ پر موجود ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ وآلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: لفظ ’’صوفی‘‘ کے متعلق ایک قول یہ ہے کہ یہ صفۃ کی طرف نسبت ہے۔ کیونکہ صوفیوں کی مشابہت ان صحابہ کرام سے ہے جو نادرا تھے اور مسجد نبوی میں صفہ (یعنی چبوترہ) پر رات گزارتے تھے۔ یہ قول صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ صفۃ کی طرف نسبت ’’صفتی‘‘ بنتی ہے۔ جس میں فاء پر تشدید ہے اور آخر میں یائے نسبت ہے اور اس میں واؤد موجود نہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کی نسبت صفرۃ کی طرف ہے جس سے ان کے دلوں اور عملوں کی صفائی کی طرف اشارہ ہے، یہ قول بھی غلط ہے کیونکہ صفرۃ کی طرف نسبت صفوی ہوتی ہے اور یہ بات اس لئیح بھی غلط ہے کہ انکے عقیدے میں خرابی پائی جاتی ہے اور اعمال میں بدعتوں کی کثرت ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ان کی نسبت صوف (یعنی اون) کی طرف ہے۔ کیونکہ ادنی لباس ان کی پہچان بن گیا تھا۔ یہ قول لغوی طور پر یہ بھی اور واقعہ کے اعتبار سے بھی نسبتاً زیادہ صحیح معلوم ہوتاہے۔[1] وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز فتویٰ (۷۱۴۰) یہ بے اصل اور باطل چیزیں ہیں سوال صوفیہ کے طرفق اور ان کے مرتب کردہ وظیفوں کا کیا حکم ہے جو فجر اور مغرب کی نمازوں سے پہلے پڑھے جاتے ہیں۔ اس شخص کا کیا حکم ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیداری کی حالت میں آنکھوں سے دیکھا اور ان الفاظ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا: (اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا عَیْنَ الْعُیُونِ وَرُوحَ الأَروَاحِ؟)
[1] تیجانیہ اور ان کی بدعتوں کے بارے میں آئنندہ اوراق میں الگ بات موجود ہے۔ اسے ملاحظہ فرمائیں۔