کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 151
﴿وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِہِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَیِّئًا عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْہِمْ﴾ (التوبہ۹؍۱۰۲) ’’اور دوسرے وہ لوگ ہیں جنہو ں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا ہے، انہوں نے ملے جلے عمل کئے کچھ اچھے (نیک) اور کچھ برے۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔‘‘ یہ دونوں قسم کے افراد اپنی غلط تاویل یا لاعلمی کی بنا پر کسی حکم کا انکار کرنے کی وجہ سے کافر نہیں ہوجاتے، بلکہ انہیں معذور سمجھاجاتا ہے اور وہ فرقہ ناجیہ (نجات یافتہ فرقہ) میں شامل ہیں اگر چہ ان کا درجہ پہلی قسم کے افراد سے کم ہے۔ کچھ لوگ وہ ہیں جو واضح ہونے کے بعد بھی دین کے کسی بنیادی مسئلہ کا انکا رکرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت چھوڑ کر اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتے ہیں، یا شرعی نصوص کی ایسی بعید تاویل کرتے ہیں جو پہلے گزرے ہوئے تمام مسلمانو ں کے خلاف ہوتی ہے۔ جب ان کے سامنے حق واضح کیا جائے اور مباحثہ ومناظرہ کے ذریعے حجت قائم کردی جائے تب بھی حق کو قبول نہیں کرتے تو ایسے لوگ کافر اور مرتد ہیں، اگرچہ وہ خود کو مسلمان کہیں، اگرچہ اپنے عقیدہ وطریقہ کے مطابق پوری کوشش سے اسلام کی تبلیغ کریں۔ مثلاً قادیانی جماعت‘ جنہوں نے جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوجانے کے عقیدہ کا انکار کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ غلام احمد قادیانی‘ اللہ کا نبی اور رسول ہے یا وہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اور مسیح علیہ السلام ہے ‘ یا ا س کے بدن میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا عیسیٰ علیہ السلام کی روح آگئی ہے اس طرح وہ نبوت ورسالت میں خود مسیحؑ یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی بن گیا ہے۔ (۶) اہل سنت والجماعت کے چند پختہ اصول ہیں، جن پر وہ فروعی مسائل کی بنیاد رکھتے ہیں اور جزوی مسائل میں نیز خود پر اور دوسروں پر احکام کی تطبیق میں، ان کا لحاظ رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک اصولی مسئلہ یہ ہے کہ ایمان دل کے عقیدہ،زبان کے اقرار اور اس کے مطابق عمل کرنے کا نام ہے۔ نیکی کرنے سے امان بڑھتا ہے اور گناہ کرنے سے گھٹتا ہے۔ ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کی جتنی زیادہ اطاعت کرے گا اس کے ایمان میں اتنا ہی اضافہ ہوجائے گا اور جس قدر کوتاہی کا مرتکب ہوگا اور کسی ایسے گناہ کا ارتکاب کرے گا جو کفر تک نہیں پہنچتا، اسی قدر اس کے ایمان میں کمی واقع ہوجائے گی۔ یعنی ان کے نزدیک ایمان کے درجات ہیں، اسی طرح فرقہ ناجیہ کے افراد میں بھی ان کے قول وعمل کے مطابق درجات کا فرق پایا جاتاہے۔ ایک اصولی مسئلہ یہ ہے کہ وہ اہل قبلہ میں سے کسی شخص یا گروہ پر نشاندہی کرتے ہوئے کفر کا حکم نہیں لگاتے۔ کیونکہ جب حضرت اسامہ بن زیدش حارثہ رضی اللہ عنہ نے ایک کافر کو اس کے لاالہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کردیا تھا توجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناراضگی کااظہار فرمایا اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا یہ عذر قبول نہیں فرمایا کہ اس نے ان سے جان بچانے کیلئے کلمہ پڑھا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أَفَلاَ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہِ حَتَّی تَعْلَمَ أَقَامَھَا أَمْ لاَ) ’’ تم نے اس کا دل کیوں نہ چیر لیا کہ تمہیں معلوم ہو کہ اس نے کہا یا نہیں۔‘‘ [1] یعنی خلوص دل سے کلمہ طیبہ کا اقرار کیا ہے یا نہی؟ الا یہ کہ کوئی شخص واضح طور پر کفر کا اظہار کرے مثلاً کسی ایسی بات کا انکار کرے جس کا جزو دین ہونا ہر خاص وعام کو
[1] مسند احمد ج:۴، ص:۴۳۹، ج:۵، ص:۲۰۷، صحیح بخاری حدیث نمبر: ۴۲۶۹، صحیح مسلم حدیث نمبر: ۹۶، سنن ابی داؤد حدیث نمبر: ۲۶۴۳، سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: ۳۹۷۷۔