کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 150
بیان فرمایا، جیسے یہاں بیان کیا اور کبھی وضاحت اور تفصیل سے بیان فرمایا، جیسے ان کی اکثر تصنیفات میں پایا جاتا ہے۔ (۵) اسلام کی طرف اپنی نسبت کرنے والی جماعتیں اور گروہ جن ناموں اور القاب سے مشہور ہیں، بہتر فرقوں کی پہچان کیلئے یا ایک دوسرے سے امتیاز کے لئے ان کے یہ نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں رکھے۔ بلکہ ان کی صرف یہ علامت بتائی ہے کہ قرآن وسنت‘ خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کے اجماع کی مخالفت کرتے ہیں۔ خواہشات نفس اور اوہام کی پیروی کرتے ہیں، بغیر علم کے اللہ کے ذمہ باتیں لگا دیتے ہیں، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دوسرے متبوعین کے لئے تعصب رکھتے ہیں، ان کی دوستی اور مخالفت کا دارومدار یہی قائدین ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس نجات یافتہ فرقہ کی علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ کتاب وسنت کی پیروی کرتے ہیں، مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہتے ہیں، اپنے احساسات‘ خیالات اور خواہشات پر شریعت کو ترجیح دیتے ہیں۔ لہٰذا ان کی پسند اور ناپسند شریعت کے احکام کے تابع ہوتی ہے، ان کی محبت اور مخالفت کا دارومدار بھی اسی چیز پر ہوتا ہے۔ لہٰذا جو شخص مختلف فرقو ں کی پہچان کے لئے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ پیمانہ کے علاوہ دوسرا پیمانہ اختیار کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعے نجات یافتہ اور ہلاک ہونے والے فرقوں کے مابین امتیاز کرے تو اس نے بغیر علم کے بات کی اور بغیر بصیرت کے اس فرق کا فیصلہ کیا۔ اس طرح اس نے اپنے آپ پر بھی ظم کیا اور مسلمان کہلانے والے فرقوں پر بھی ظلم کیا اور جو شحص نجات یافتہ اور ہلاک ہونے والے فرقوں کے مابین امتیاز کرنے کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت کی طرف رجوع کرتا ہے اس کا فیصلہ بھی انصاف پر مبنی ہوتا ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہوجاتاہے کہ امت کی ان جماعتوں کے مختلف درجات ہیں۔ ان میں سے ایک جماعت شریعت کے احکام دل وجان سے تسلیم کرنے اور شریعت کی اتباع کرنے کا انتہائی شوق رکھتی اور دین میں بدعتیں ایجاد کرنے، یا نصوص میں تحریف کرنے، یا ان میں کمی بیشی کرنے سے انتہائی دور بھاگتی ہے تو ایسے خوش نصیب لوگ ہی فرقہ ناجیہ میں شمار ہوسکتے ہیں۔ تو حدیث کا علم رکھنے والے علماء اور کتاب وسنت کی سمجھ رکھنے والے ائمہ وفقہاء میں ایسے افراد موجود ہیں جو اجتہاد کی اہلیت رکھتے ہیں، شریعت کو تسلیم کرتے اور اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں، البتہ کبھی کبھار کچھ نصوص کی ایسی تاویل کرلیتے ہیں جو درست نہیں ہوتی تو انہیں ایسی غلطی میں معذور قراردینا چاہئے کیونکہ یہ اجتہادی غلطی ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ شریعت کی بعض نصوص کا انکار کردیتے ہیں، اس کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اسلام میں ابھی ابھی (نئے نئے) داخل ہوئے ہیں(اور انہیں ان نصوص کا علم نہیں) وہ اسلامی علاقوں کے دور دراز خطے میں پیدا ہوئے (جہاں اسلامی تعلیمات عام نہیں) تو انہیں یہ شرعی حکم معلوم نہیں ہوسکا جس کاانہوں نے انکار کیا ہے۔ بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو کسی گناہ گار کا ارتکاب کرتے ہیں یا ایسی بدعت ایجاد کرتے ہیں جو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتی تو یہ مومن نہیں، انہوں نے جو نیکی کی اس لحاظ سے وہ اللہ کے فرماں بردار ہیں اور جس گناہ یا بدعت کا ارتکاب کیا اس کے لحاظ سے گناہ گار ہیں۔ یہ لوگ اللہ کی مشیت میں داخل ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں معاف کردے اور اگر چاہے تو عذاب دے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾ ’’یقیناً اللہ تعالیٰ یہ (گناہ) معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، اس کے علاوہ جس کے (گناہ) چاہتاہے بخش دیتا ہے۔‘‘ اور فرمایا: