کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 14
کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں جولوگ مرتد ہوجانے کے بعد دوبارہ مسلمان ہوگئے تو صحابہ کرام نے ان کے سابقہ نکاح قائم رکھے، انہیں ان کی بیویوں سے الگ ہونے کا حکم نہیں دیا اور ان کا نئے سرے سے نکاح بھی نہیں پڑھایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل ہمارے لئے اسوہ حسنہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ وَبِاللّٰہ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدِ وَآلِہِ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر: عبدالعزیز بن باز ٭٭٭ فتویٰ (۷۱۵۰) ارتداد کا مطلب سوال:… کہتے ہیں کہ ارتداد کا بعض اوقات زبانی (قولی) ہوتا ہے اور بعض اوقات عملی (فعلی) براہ کرم اختصار کے ساتھ وضاحت فرمادیجئے کہ ارتداد کی ان قسموں۔ قولی، فعلی، اور اعتقادی، کا کیا مطلب ہے؟ جواب:… لْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ آلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: ارتداد کا مطلب ہے مسلمان ہونے کے بعد کافر ہوجانا۔ ارتدادقول سے بھی ہوسکتا ہے، فعل سے بھی، اعتقاد سے بھی اور شک سے بھی۔ مثلاً اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے یا اس کی ربوبت کا انکا رکرتا ہے، یا ا س کی وحدانیت، اس کی کسی صفت، اس کی نازل کی ہوئی کسی کتاب یا کسی رسول کا انکار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول کو گالی دیتا ہے، یا جن چیزوں کی حرمت پر امت کا اجماع ہے ان میں سے کسی کو حلال سمجھتا ہے، یا اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک کا انکار کرتا ہے یا اسلام کے کسی رکن کے وجوب میں، یا جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور نبی کی نبوت میں یا قیامت میں شک کرتا ہے، یا کسی بت یا ستارے وغیرہ کو سجدہ کرتا ہے تو ایسا شخص کافر اور دین اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ مزید تفصیل کے لئے فقہ کی کتابوں میں مذکور ارتداد کا مطلب مفید ہوگا۔ علمائے کرام نے اس مسئلہ کو اپنی کتابوں میں کماحقہ اہمیت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب پر رحمت نازل فرمائے۔ مذکورہ بالا مثالوں سے قولی، عملی اور اعتقادی ارتداد اور شک کی بنیاد پر ارتداد کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ مرتد، بلاتوبہ مرے تو اعمال ضائع ہوجاتے ہیں سوال کہا جاتا ہے زبانی ارتداد، زبان سے ارتداد کا لفظ ادا کرنے سے واقع ہوتا ہے، مثلاً دین کو گالی دینا اور کہتے ہیں کہ جو شخص اس قسم کی گالی وغیرہ کے ارتکاب کی وجہ سے مرتد ہوتا ہے۔ اس کے سابقہ تمام اعمال کالعدم ہوجاتے ہیں مثلاً نماز، روزہ، زکوۃ اور نذر کی ادائیگی وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ ارتداد سے توبہ کرنے کے بعد دوران ارتداد جو عمل چھوٹ گئے یا باطل ہوگئے تو کیا ان اعمال کی قضا واجب ہے یا نہیں؟ اگر واجب ہے تو کیا روزے پے درپے رکھنا ضروری ہیں؟ جواب ارتداد کی اقسام پہلے بیان ہوچکی ہیں۔ ارتداد میں یہ شرط نہیں ہے کہ مرتد اس قسم کے الفاظ ادا کرے کہ ’’میں اپنے دین سے مرتد ہوتا ہوں‘‘ یا ’’میں ان دین اسلام کو ترک کرتا ہوں‘‘ وغیرہ۔ لیکن اگر کوئی شخص اس قسم کے الفاظ ادا کرے تو اس کا یہ کہنا بھی ارتداد کی ایک قسم شمار ہوگا۔ مرتد جب دوبارہ مسلمان ہوجائے تو اس پر یہ واجب نہیں ہوتا کہ زمانہ ارتداد میں چھوڑے ہوئے روزوں، نمازوں اور زکوۃ وغیرہ کی قضادے۔ مرتد ہونے سے پہلے حالت اسلام میں جو اس نے نیک اعمال کئے تھے، دوبارہ اسلام میں داخل ہونے کی وجہ سے بچ جائیں گے۔ کیونکہ اعمال ضائع ہونے