کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 135
نہیں دینا چاہتا اور مذکورہ بالا تمام معروضات کا خلاصہ ایک سوال کی صورت میں عرض کرتا ہوں۔ وہ یہ کہ کوئی شخص مرتد کب ہوتا ہے؟ میں یہ نہیں پوچھ رہا کہ مرتد کی پہچان کیا ہے؟ میں تو یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ انسان اپنے بارے میں کس طرح جان سکتا ہے کہ وہ مرتد ہوگیا ہے؟ اور میں یہ بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر مرتد دوبارہ مسلمان ہونا چاہے تو اس کے لئے غسل کرنا ضروری ہے جس طرح ایک کافر مسلمان ہوتے وقت غسل کرتا ہے ‘ اگر مرتدہونے کے زمانے میں اس پر غسل جنابت فرض نہ ہوا ہو؟ ایک اور سوال بھی ہے کہ حج فرض ہے جو زندگی میں صرف ایک بار اداکرنا فرض ہے سوائے حالت ارتداد کے (نعوذ باللّٰہ من ذالک) تو کیا اور بھی ایسے حالات ہیں جن میں مسلمان پر دوبارہ حج کرنا فرض ہو جاتا ہے؟ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ آلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: (۱) دائرہ اسلام سے خارج کرنے والی چیزیں بہت سی ہیں، جنہیں علماء نے مرتد کے احکام کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ جو شخص مرتد ہوجائے، اس کے بعد دوبارہ اسلام میں داخل ہوجائے تو اس کے وہ نیک کام ضائع نہیں ہوتے، جو ا س نے پہلے اسلام کے دوران کئے تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے: ﴿وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَ ہُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْن﴾ (البقرۃ ۲/ ۲۱۷) ’’اور جو شخص اپنے دین سے پھر جائے اور حالت کفر میں مرجائے تو ایسے لوگوں کے لئے دنیا اور آخرت میں (سب) اعمال ضائع ہوگئے اور یہی لوگ جہنم والے ہیں، اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمل ضائع ہونے کی یہ شرط بیان کی ہے کہ یہ عمل کرنے والے کی سزا موت کفر ہے۔‘‘ (۲) دل میں آنے والے خیالات اور شیطانی وسوسوں کی بنا پر انسان کا مؤاخذہ ہوتا ہے نہ ان کی بنا پر وہ اسلام سے خارج ہوتا ہے: ارشاد نبوی ہے: (أِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِی مَا حَدَّثَتْ بِہِ أَنْفُسَھَا) ’’اللہ تعالیٰ نے میری امت کی وہ غلطیاں معاف کردیں جن کے متعلق وہ (صرف) دل میں سوچیں (عمل نہ کریں)۔‘‘ یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی ہے۔ (۳) برے خیالات اور وسوسوں کو دل سے دور ہٹا دیں اور اللہ کی پناہ مانگیں، اللہ کاذکر اور تلاوت قرآن مجید کثرت سے کریں۔ نیک لوگوں کی مجلس اختیار کریں اور نفسیاتی واعصابی امراض کے ڈاکٹر سے علاج کروائیں۔ حسب توفیق تقویٰ پر کاربند رہیں اور مشکل اور پریشانی کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کریں تاکہ وہ آپ کے تفکرات اور پریشانیاں دور فرمائے ارشاد ربانی ہے: ﴿وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا٭ وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ اِِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا ﴾ (الطلاق۶۵؍۲۔۳) جو شخص اللہ سے ڈرے، اللہ اس کے لئے (پریشانیوں سے) نکلنے کی راہ بنادے گا اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر توکل کرے تو وہ اسے کافی ہے۔ اللہ اپنے کام کو پہنچنے والا ہے (یعنی پورا کرکے رہے گا) اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لئے اندازہ مقرر کررکھا ہے۔‘‘