کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 12
عرض مترجم
الْحَمْدُ للّٰہ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیینَ وَعَلَی آلِہِ وَأَصْحَابِہَ أَجْمَعِیْنَ وَمَنْ تَبِعَھُمْ بِأِحْسَانِ أِلَی یَوْمِ الدِّیْنِ۔ وَبَعْدُ:
اللہ تعالیٰ نے علمائے کرام کو یہ عظیم منصب عطا فرمایا ہے کہ انہیں انبیائے کرام کاوارث بنادیا ہے۔ چنانچہ نبوت ورسالت کا مبارک سلسلہ ختم ہوجانے کے بعد دین کی تبلیغ اور نشر واشاعت کے ساتھ ساتھ اس کی تشریح وتوضیح بھی ان کی ذمہ داری قرار پائی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے حسب ضرورت کے مسائل دریافت فرمارے اور شافی جواب پاتے۔ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ مقام حاصل ہوا کہ مشکل مسائل میں ان سے رہنمائی طلب کی جاتی تھی۔ مثلاً حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عائشہ اور دیگر حضرات رضی اللہ عنہم ۔ ان کے بعد بھی ہر دور کے ایسے ممتاز افراد کے نام کتب تاریخ ورجال کے اوراق کی زینت ہیں، جنہوں نے اس میدان میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ ان کی قابل قدر تصنیفات آج بھی ہماری رہنمائی کے لئے لائبریریوں میں موجود ہیں۔
دور حاضر میں بھی عظیم علماء یہ ذمہ داری ادا کر رہے ہیں، اور ان کے فتاویٰ کے مجموعے وقتاً فوقتاً منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔
حکومت سعودی عرب نے اس مقصد کے لئے بڑے بڑے علمائے کرام کا ایک مستقل بورڈ قائم کررکھا ہے جو ساری دنیا کے مسلمانوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام رے رہا ہے۔ زیر نظر کتاب اسی بورڈ کے جاری کردہ فتاویٰ پر مشتمل ہے۔ جس کے ایک حصہ کا اردومیں ترجمہ کرنے کی سعادت مجھے حاصل ہوئی ہے۔ علماء کے اس بورڈ کے بلند مقام کا اندازہ لگانے کے لئے یہی کافی ہے کہ اس کے سربراہ سعودی عرب کے مفتی اعظم جناب فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز ہیں۔ شیخ ابن باز کی شخصیت علمی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ پھر ان کے ساتھ جناب فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق عفیفی مرحوم بھی تھے۔ ان کا علمی مقام ومرتبہ بھی مسلم ہے۔ اسی طرح بورڈ میں شامل دیگر علمائے کرام بھی ممتاز مقام کے حامل ہیں۔
ان جلیل القدر علمائے کرام کے افکار قارئیں تک عام فہم زبان میں پہنچ جائیں۔ ا س کوشش میں غلطی کا صدور خارج از امکان نہیں۔ چنانچہ اس ترجمہ کی تمام غلطیوں اور کوتاہیوں کی ذِمہ داری میری علمی کم مائیگی پر ہے۔
میں ادارہ ’’دارالسلام‘‘ کے مہتمم جناب مولانا عبدالمالک مجاہد صاحب کا ممنون ہوں، جنہوں نے مجھے یہ خدمت انجام دینے کا موقع فراہم کیا۔ اور ان تمام حضرات کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جن کا تعاون مجھے کسی بھی مرحلہ میں حاصل رہا۔
جزاھم اللّٰه فی الدارین احسن الجزاء۔
میں اللہ تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہوں کہ وہ میری اس حقیر کوشش کو قبول فرمائے اور اپنے بندوں کے لئے ہدایت وسعادت کا ذریعہ بنائے۔ آمین۔
عطاء اللہ ساجد
۲۳ جولائی ۱۹۹۸ء