کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 105
وجوب الدقۃ فی التعبیر والتحذیر مین الالفاظ الموھمۃ تعبیر وتوضیح میں باریک بینی اور شک وشبہ میں ڈالنے والے الفاظ سے گریز کی ضرورت فتویٰ (۲۸۲) صحیح الفاظ کا انتخاب سوال اسلامی معاشروں میں اپنے چالو طریق کار کو اسلامی تعلیمات کے موافق ظاہر کرنے کیلئے کچھ کلمات بولے جاتے ہیں جو یہ ہیں: (وَتَمَشِّیاً مَعَ الْعَادَاتِ وَالتَّقََالِیدِ الأِسْلَامَِّۃِ نَھْجُنَا کَذَ) ’’اسلامی رسم ورواج پر چلتے ہوئے‘‘ ہمارا طریق کار یہ ہے‘‘ زمانہ حاضر کے علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ یہ الفاظ استعمال کرنے درست نہیں یا نہیں، بعض علماء ان الفاظ کو استعمال کرنا درست نہیں سمجھتے۔ کیونکہ اسلام ’’رسم ورواج‘‘سے الگ چیز ہے۔ انہوں نے اس بارے میں بہت کچھ فرمایا ہے۔ حتیٰ کہ بعض حضرات یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ لفظ اسلام دشموں نے ہمارے اندر رائج کیا ہے۔ بعض دوسرے حضرات اس عبارت کے استعمال میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کیونکہ اس سے صرف یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ مسلمان اپنے اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی پابندی کرتے ہیں، کسی اور چیز۔ کی طرف توجہ نہیں کرتے اور عبادت کا مقصود بھی تو یہی ہے اور تقالید کا یہ لفظ اسی ’’تقلید‘‘ کے لفظ سے ماخوذ ہے جس پر علمائے کرام نے علمی کتابوں میں بحث کی ہے۔ گزار ش ہے کہ آپ اس لفظ کے ضمنی معانی ومفاہیم کی وضاحت کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمائیں کہ اس کا استعمال جائز ہے یا ناجائز ؟ اور دلائل بھی بیان فرمادیں۔ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ آلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: اسلام کسی رسم ورواج کا مجموعہ نہیں بلکہ وہ تو اس وحی کانام ہے جو اللہ نے اور اس کے رسولوں پر ناز ل کی اور جس کے ساتھ اس نے اپنی کتابیں ناز ل فرمائیں جب مسلمان اس کی پیروی کرتے ہیں تو یہ چیز ان کے اخلاق وعادات کا جزو بن جاتی ہے۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام ایسے قوانین کا نام نہیں جو عوام کے رواج سے ماخوذ ہوں کیونکہ وہ یقیناً اللہ پر، اس کے رسولوں پر اور اسلامی قانون کے تمام بنیادی امور پر ایمان رکھتا ہے لیکن جو الفاظ اخبارات ورسائل اور ریڈیو وغیرہ میں اور مختلف قوانین کی شقوں میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں عام لوگ بھی وہی الفاظ استعمال کرنے لگتے ہیں۔ جس کی مثال سوال میں مذکور الفاظ وَتَمَشِّیَا مَعَ الْعَادَاتِ والتَّقَالِیدِ ’’اسلامی رسم ورواج پر چلتے ہوئے‘‘