کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 1) - صفحہ 42
امابعد! بہتر حدیث اللہ کی کتاب ہے اوربہتر راہ ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ ہے اور سب سے برے کام وہ ہے جو نئے بنالئے جائیں اورہر بدعت گمراہی ہے۔ اسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا اور پہلی حدیث کو شیخین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی ایک ایسا واقعہ ہو ا۔ انہوں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ حلقہ بابدھے ہوئے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے کہ سوبار سبحان اللہ کہو…سو بار لا الہ الا اللہ کہو… وغیرہ وغیرہ ۔ تو آپ نے ان پر گرفت کرتے ہوئے فرمایا: شاید تو لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت سے زیادہ ہدایت یافتہ ملت ہو۔ یا پھر گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو ۔ وہ کہنے لگے۔ اے ابو عبد الرحمن! ہمارا اس سے بھلائی کے علاوہ کچھ اور ارادہ نہیں تھا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جوبھلائی کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن وہ انہیں ملتی نہیں۔ جو کچھ ہم نے ذکر کیا اسے سائل اور دوسرے لوگ جانتے ہیں کہ یہ اور اس سے ملتے جلتے اعمال دین میں نئی نئی بدعات ہیں۔ مسلم کے لیے مشروع یہی بات ہے کہ وہ خود ہی سبحان اللہ ، الحمد اللہ اور لا الہ الااللہ کہے اور اس کے لیے نہ حلقے بنائے اور نہ کوئی دوسری کیفیت ، جسے اللہ نے مشروع نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایسی بات کی توفیق دے جس میں ا س کی رضا ہے او ر شریعت مطہرہ کی موافقت عطا فرمائے۔ بلاشبہ وہی بہتر ہے جس سے سوال کیا جاتا ہے۔ اللہ سے ڈور جس حد تک ممکن ہو سوال: ہم چند دوست اس غرض سے اکٹھے ہوئے کے دینی اور دنیاوی امور بحث مباحثہ کریں۔ حاضرین میں سے ایک نے سوال پیش کیا تھا کہ آیا ایک مسلمان۱۰۰ فی صد ایک مسلمان کی سی زندگی گزار سکتا ہے اور اس پر قائم رہ سکتا ہے جبکہ اس معاملہ میں ایجابی اور سلبی قسم کے اجتماعئی دباؤ بھی موجود ہیں۔ یعنی اگر ایک مسلمان ہر اس چیز سے بچنا چاہئے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام کیا ہے اور ہر اس چیز سے فائدہ اٹھانا چاہے اس نے حلال کیا ہے۔ یہی صورت سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے کہ وہ اس چیز پر عمل کرے جو مباح ہے او ر منع کر دہ اشیاء سے آیا وہ بچ سکتا ہے؟ اس سوال کے مختلف جواب تھے۔ اگر چہ ہر جواب اچھا تھا تاہم جوابات میں اختلاف حالات کے اختلاف سے متعلق تھا۔ ایک فریق یہ کہتا تھا کہ آدمی اس بات پر قادر ہے کہ وہ سوفی صد مسلمان کی سی زندگی گزار سکے۔ جبکہ دوسرا فریق اس بات کی موافقت نہیں کررہا تھا۔ دوسرا فریق جو سو فیصد مسلمانوں کی سی زندگی