کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 1) - صفحہ 41
کھائے ، بلکہ یہ بات محرمات شرکیہ میں سے ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ((مَنْ کَانَ حَالِفًا فَلْیَحْلِفْ بِاللّٰہ، أَلِیَصْمُتْ)) ’’ اگر کسی کو قسم کھانا ہی ہو تو اللہ کی کھائے یا پھر خاموش رہے‘‘ اس حدیث پر شیخین کا اتفاق ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ حَلَفَ بغیر اللّٰہِ فقدْ کفرَ أَو أَشرکَ)) ’’ جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر کیا یا شرک کیا‘‘ اس حدیث کی ابوداؤد اور ترمذی نے اسناد صحیح سے تخریج کی ہے نیز اس بارے میں اور بھی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ امام ابن عبدلبررحمہ اللہ نے اس بات پراہل علم کا اجماع بیان کیا ہے کہ غیر اللہ کی قسم کھانا جائز نہیں ۔ الہٰذا ہر مسلم پر واجب ہے کہ وہ اس سے پرہیز کرے اور سابقہ باتوں اور تمام گناہوں سے اللہ کے حضور توبہ کر ے اور راہ حق پر ڈٹا رہے اور ان باتوں میں رغبت رکھتے ہوئے کہ اللہ کے ہاں اس کے لیے خیر اور بہت بڑا اجر ہے اور اس کے غضب اوراس کی سزا ڈرتے ہوئے حق کی محافظت کرے۔ اور توفیق تواللہ ہی سے ہے۔ ہمارے ہاں بعض حلقہ باندھے اور اپنی کمروں پررومال باندھے استغفار کرتے ہیں ۔ اس کا کیا حکم ہے: سوال: ہمارے ہاں ایک رواج یہ ہو چلا ہے کہ بعض لوگ حلقہ بنالیتے ہیں اور وسط میں سفید رومال رکھ لیتے ہیں ۔ پھر وہ لاالہ اللہ کہتے ، استغفار کرتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دورد بھیجتے ہیں ان کے بارے میں کیا حکم ہے۔؟ جواب: یہ رواج بدعت ہے جسے نہ مصطفی علیہ الصلاۃ والسلام نے اور نہ سلف صالحین نے کیا اور نہ اس کا حکم دیا نہ ہی اسے برقرار رکھا۔ لہٰذ ا یہ بدعت ہوئی۔ جسے چھوڑنا ضروری ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((مَنْ أَحدثَ فی أَمرِنا مَا لیسَ مِنْہُ فہُورَدَّ)) ’’ جس نے ہمارے اس امر (شریعت) میں کوئی نئی بات پیدا کی جو پہلے اس میں نے تھی ، وہ مردود ہے‘‘ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ جمعہ میں فرمایا: