کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 1) - صفحہ 37
لہٰذا ایسے لوگوں سے ان سے کچھ پوچھنے اور ان کی ہاں علاج کرانے سے پرہیز لازم ہے۔خواہ وہ یہ سمجھتے ہوں کہ قرآن سے علاج کرتے ہیں کیو نکہ حقو باطل کی آمیزس اور فریب دہی اہل باطل کا شیوہ ہوتا ہے لہذا جو کچھ وہ کہتے ہیں اسے سچ سمجھنا درست نہیں او رجوشخص ایسے لوگوں میں سے کسی کو جانتا ہو اسے چاہئے کہ وہ اس کامعاملہ افسران متعلقہ اور مراکز شرعیہ تک پہنچائے جو ہر شہر میں موجوہ ہوتے ہیں تاکہ ایسے لوگوں کا اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا جائے تا کہ ان مسلمان کے شرو فساد سے محفوظ رہ سکیں اور اس بات سے بھی کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں۔
اور اللہ ہی مدد گار ہے جس کے بغیرنہ برائی سے بچنے کی ہمت ہے او رنہ نیکی سرانجام دینے کی طاقت ہے۔
قبروں پر تعمیر
میں نے اپنے ہاں بعض قبروں پر سیمنٹ کی تختیاں لگی دیکھی ہیں جن پر مرنے والے کا نام اور بعض دعائیں لکھی ہوتی ہے ا ن کے بارے میں کیا حکم ہے:
سوال: میں نے اپنے ہاں بعض قبروں پر سیمنٹ کی تختیاں بنی دیکھی ہیں جو تقریبا ایک میڑ لمبی اور آدھا میڑ چوڑی ہوتی ہیں ان پر مرنے والے کا نام ، تاریخ وفات اوربعض دعائیہ جملے، مثلا اللہ فلاں بن فلاں پر رحم فرما‘‘ وغیرہ لکھے ہوتے ہیں ایسے کام کے متعلق کیا حکم ہے؟ علی۔ ع ۔ ا ۔ القصیم
جواب: قبروں پر تختیاں یاکوئی بھی دوسری تعمیر جائز نہیں ، نہ ہی ان پر کتابت جائز ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبروں پر تعمیر اور ان پر کتابت کی ممانعت ثابت ہیے۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں :
((نہی رسُو اللّٰهِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنْ یُجصَّص الْقَبْرْ، وأنْ یُقعد علیہ، وأنْ یُبنیَ علیہ))
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کوپلستر کرنے ،ان پر بیٹھنے اور ان پر تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور ترمذی وغیرہ نے اس حدیث کی اسناد صحیحہ سے تخریج کرتے ہوئے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے (وان یکتب علیہ) (اور قبروں پرکچھ لکھا بھی نہ جائے) اور اس لیے بھی کہ یہ غلو کی اقسام میں سے ایک قسم ہے لہٰذا ا س کی ممانعت ضروری تھی اور اس لیے گھی کہ کتابت بسا اوقات غلو کے مضر انجام تک لے جاتی ہے اور یہ غلو ممنوعات شرعیہ سے ہے۔ قبر پر مٹی صرف اس لیے ڈالی جاتی ہے اور اسے تقربیا ایک بالشت اونچا رکھا جاتا ہے کے یہ معلوم ہوسکے کہ یہ قبر ہے قبروں کے متعلق یہی وہ سنت ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ