کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 1) - صفحہ 35
’’جس دم جھاڑ میں شرک نہ ہو اس میں کوئی حرج نہیں‘‘ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((منِ اسْتطاَعَ أَنْ یَنفعَ أخَاہ فَلَیَنْفَعَہ)) ’’ جو شخص اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو اسے وہ کام کرنا چاہئے‘‘ ان دونوں احادیث کی مسلم نے اپنی صحیح میں تخریج کی ہے۔نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لا رُقیۃَ إِلا مِن عین أَوحُمَۃٍ)) ’’ دم جھاڑ نظر بد اور بخار کے لیے ہی ہوتا ہے‘‘ جس کا معنی یہ ہے کہ ان دو باتوں میں ہی دم جھاڑ بہتر اور شفابخش ہوتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دم جھاڑ کیا بھی ہے اور کرایا بھی ہے رہادم جھاڑ یا تعویذ کو مریضوں اور بچوں کے گلے میں لٹکانا تو یہ جائز نہیں ۔ ایسے لٹکائے ہوئے تعویذ کو تمائم بھی کہتے ہیں اور حروز اور جو امع بھی ۔اورحق بات یہ ہے کہ یہ حرام اور شرک کی اقسام میں سے ایک قسم ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((مَنْ تعلَّق تمیمۃ فلاَ أَتمَّ اللّٰهُ لَہ، ومَنْ تعلَّق وَدعۃً فَلَا وَدَع اللّٰہُ لہ۔)) ’’ جس شخص نے تعویذ لٹکایا اللہ تعالیٰ اس کا بچاؤ نہیں کر ے گا اور جس نے گھونگا باندھا وہ اللہ کی حفاظت میں نہ رہا‘‘ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ تعلَّق تمیمۃً فقد أَشرْکَ)) ’’ جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا‘‘ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ الرُّقی وَالتَّمائِمَ والتَّولۃَ شِرْکٌ)) دم جھاڑ، تعویذ اور گنڈا شرک ہے‘‘ ایسے تعویذ جن میں قرآنی آیات یا مباح دعائیں ہو ں ان کے بارے علماء کا اختلاف ہے کہ آیا وہ حرام ہیں یانہیں؟ اور راہ صواب یہی ہے کہ وہ دو وجوہ کی بنا پر حرام ہیں۔ ایک وجہ تو مذکورہ احادیث کی عمومت ہے کیونکہ یہ احادیث قرآنی اور غیر قرآنی ہر طرح کے تعویذوں کے لیے عام ہیں۔ اور دوسری وجہ شرک کا سدباب ہے کیونکہ جب قرآنی تعویذوں کو مباح قرار دے جائے توان میں دوسرے بھی شامل ہو کر معاملہ کو مشتبہ بنادیں گے اور ان سے مشرک کا دروازہ کھل جائے گا۔ جبکہ یہ بات