کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 1) - صفحہ 33
کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ تصویریں آویزاں کرنے کا حکم سوال: گھروں یا دوسری جگہوں میں تصویریں آویزاں کرنے کا حکم ہے؟ عبداللہ۔ ع ۔ الریاض جواب: جب یہ تصویریں کسی انسان یا دوسرے کسی جاندار کی ہوں تو انہیں لٹکانا حرام ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ((لا تَدعْ صورۃَ إلَّا طَمسْتھا، ولا قبراً مشرِفًا إلا سوَّ یتہ)) ’’ جو بھی مجسمہ دیکھو اسے مٹادو اور جو قبر اونچی دیکھو اسے برابر کردو‘‘ مسلم نے اسے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے اور یہ حدیث بھی موجود ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے صحن کے سامنے ایک پردہ لٹکایا ۔ جس میں تصاویر تھیں۔ جب انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو کھینچ کر پردہ پھاڑ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہوگیا اور فرمایا: اے عائشہ! ((إِنَّ أَصحَابَش ہذِہ الصُّوَر یُعذَّبون یومَ القِیامَۃِ، ویُقالُ لَہُم أحْیُوا مَا خَلَقْتُم)) ’’ان مصوروں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اوار انہیں کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا تھا اب اس میں جان بھی ڈالو‘‘ اس حدیث کو مسلم اور اس کے علاوہ دوسروں نے بھی نکا لا ہے لیکن جب ان تصویروں کو بگاڑ ڈالا جائے یا آرام کرنے کے لیے تکیہ بنا لیا جائے تو پھر کوئی حرج نہیں۔ کیو نکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثا بت ہے کہ ایک موقع پر جبریل علیہ السلام کے آنے کا وعدہ تھا۔ جب جبر یل علیہ السلام آئے تو اندر داخل ہونے سے رک گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جبریل علیہ السلام نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس گھر میں مجسمہ ، تصویروں والا پردہ اور کتا ہے آپ گھر والوں کو حکم دیجئے کہ مجسمہ کا سرکاٹ دیں اور پردہ کے دو تکیے بنا لیں تا کہ تصویریں روندی جاسکیں اوا رکتے کو نکال دیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا ، تب جبر یل علیہ السلام داخل ہوئے۔ اس حدیث کو نسائی نے اسناد جید سے نکالا ہے مذکور حدیث میں حدیث میں کتے کا ذکر ہے وہ حسن او رحسین کا پلا تھا جو گھر کے سامان کے نیچے تھا، نیز یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لا تَدْخُلُ الْملا ئِکۃُ بیتاً فیہ صُورۃٌ ولا کَلب)) ’’ جس گھر میں کوئی تصوریر یا کتا ہوا اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہےاور جبریل علیہ السلام کا قصہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بستر وغیرہ میں تصویر کا