کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 1) - صفحہ 31
’’ جس نے غیر اللہ کے لیے کی اس پر اللہ نے لعنت کی ہے‘‘
رہی قائل کی یہ بات کہ میں اللہ سے اس کے اولیاء کیحق یا انکی منزلت کے ساتھ یا نبی کے حق یا نبی کی منز لت کے ساتھ سوال کرتا ہوں ، تویہ بات شرک تو نہیں تاہم یہ بات جمہور اہل علم کے نزدیک بدعت اور شرک کا ذریعہ ہے ۔ کیو نکہ دعا عبادت ہے اور اس کی کیفیت تو قیفی امور سے تعلق رکھتی ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی بات ثابت نہیں جو کسی بھی مخلوق کے حق یا منزلت سے توسل کے جو ازیا اس کی مشرو عیت پر دلالت کرتی ہو۔ الہذ ا کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ایسا توسل اختراع کرے جو اللہ سبحانہ و تعالی نے مشروع نہیں کیا:
﴿اَمْ لَہُمْ شُرَکَائُ شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہٖ اللّٰہُ ﴾
یا ان کے کچھ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے ایسا دین مقرر کیاہےجس کا اللہ نے حکم نہیں دیا۔‘‘(الشوری: ۲۱)
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((مَنْ أَحْدَثَ فى امرِنا هَذا ما ليسَ منه فهُو ردُّ))
’’ جس نے ہمارے اس امر (شریعت) میں کوئی نئی بات پیدا کی جو اس میں پہلے نہ تھی وہ مردود ہے‘‘
اس حدیث کی صحت پر شخین کا اتفاق ہے اور مسلم کی روایت جسے بخاری نے اپنی صحیح میں تعلیقاذ کر کیا ہے اس کی تاکید کرتی ہے وہ یوں ہے :
((مَنْ أحْدثَ فی أمرِنا ہَذا لیسَ منہُ فھُو ردٌ))
’’ جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے امر (شریعت) میں موجود نہیں وہ مردود ہے‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول رد کامعنی یہ ہے کہ وہ کام کرنے والے کے منہ پر مارا جائے گا اور قبول نہیں کیا جائے گا۔لہذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے مشروع کیا ہے اسی کے پابند رہیں اور جو بدعات لوگوں نے پیدا کر رکھی ہیں ان سے بچیں۔ مشروع توسل صرف یہ ہے کہ اللہ کی ذات اس کی صفات اس کی توحید اور عمال صالحہ سے توسل کیا جائے اللہ تعالیٰ اس کے رسولوں پر ایمان نیز اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور اسی طرح کے نیکی اوربھلائی کے کاموں سے توسل کرنا چاہیے…اور عمل کرنے کی توفیق بخشے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔