کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 5) - صفحہ 382
وقت تک محض جنسی تسکین کے لیے تیرے پاس آیا کروں گا۔ اسلام ایسی عارضی شادی کی اجازت نہیں دیتا جو محض تلذذ کے لیے کی جاتی ہے۔ ہماری شریعت میں نکاح کوئی ملکی رسم یا خاندانی روایت نہیں بلکہ ایک ایسا نظام ہے جو پاک بازی، افزائش نسل،باہمی پیار و محبت کی خشت اول ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مِنْ اٰيٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَيْهَا وَ جَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً ﴾[1] ’’اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لیے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی ہے۔‘‘ اس آیت سے معلوم ہوا کہ نکاح کے نتیجہ میں دو طرح کی رشتہ داریاں وجود میں آتی ہیں: ایک یہ کہ ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے، اس سے نسبی رشتہ داری وجود میں آتی ہے، دوسری یہ کہ ہماری بیٹیاں کسی کے گھر بہو بن کر جاتی ہیں تو اس سے سسرالی رشتہ داری قائم ہوتی ہے۔ پھر ان دونوں قسم کی تعلق داری سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔ مقام غور یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ مبارک نکاح اور اس کے عظیم مقاصد اور دوسری طرف نکاح مسیار، جس میں عورت خاوند کی بیوی تو ہے لیکن نہ سسر، نہ ساس، اسی طرح عورت کو خاوند کے رشتے داروں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ سوال میں سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کی حقیقت یہ ہے: ’’جب سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا بڑی عمر کی ہو گئیں اور انہیں اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ دیں گے تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ! میرا دن عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے وقف ہے تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرما لیا۔‘‘[2] ایک روایت میں ہے ، سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے اس لیے وقف کی تھی تاکہ اس قربانی کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کر سکے۔[3] ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کو اندیشہ ہوا کہ مبادا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بڑھاپے کی وجہ سے چھوڑ دیں گے تو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اور آپ کی خوشنودی کی وجہ سے اپنے جذبات کی قربانی دی۔ اس حدیث کا موجودہ نکاح مسیار سے کیا تعلق ہے؟ جو سراسر مقاصد نکاح کے خلاف ہے۔ بہرحال اسلام میں اس طرح کے عارضی نکاح کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ یہ ایک نکاح متعہ کی صورت ہے جسے اسلام نے قیامت تک کے لیے حرام قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم! ٭٭٭
[1] الروم:۲۱۔ [2] ابو داؤد، النکاح:۲۱۳۵۔ [3] بخاری، الہبہ:۲۵۹۳۔