کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 5) - صفحہ 381
ظاہری طور پر شرعی حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی مرد سے نکاح کرتی ہے اور وہ اپنے حقوق سے دستبردار ہو جاتی ہے۔ یعنی وہ نان و نفقہ اور رہائش وغیرہ کا مطالبہ نہیں کرے گی۔ مرد جب چاہے آ کر اپنی جنسی تسکین پوری کر لے اور مرد باقی ذمہ داریوں سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کی کئی ایک صورتیں ہو سکتی ہیں، مثلاً ٭ کسی مرد نے سفر کرنا ہے تو شادی کر کے عورت کو ہمراہ لے جائے۔ ٭ طالب علم نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ہے تو اس دوران کسی سے شادی کر لے۔ ٭ کسی شخص نے کاروبار کے سلسلہ میں کسی شہر میں قیام کرنا ہے تو اس دوران شادی کر لے۔ تعلیم یا سفر ختم ہوتے ہی اسے طلاق دے دے یا کبھی عارضی طور کی امید پر اپنی اس شادی کو برقرار رکھے، اس قسم کی شادی کے ذریعے بننے والے میاں بیوی اس رشتے کو اپنی ذات کی حد تک محدود رکھتے ہیں۔ فریقین میں سے کسی کو دوسرے کے رشتے داروں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ ایک دوسرے کے خاندان سے واقفیت نہیں ہوتی۔ دور حاضر کے علماء اس قسم کی شادی کے متعلق تین آراء رکھتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ چونکہ اس میں شرعی شرائط پائی جاتی ہیں اس لیے یہ جائز ہے، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بیوی اپنے حقوق سے دستبردار ہو جاتی ہے، وہ خاوند سے نان و نفقہ اور رہائش کا مطالبہ نہیں کرتی، جیسا کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے اپنے حقوق سے دستبردار ہو کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنی باری ہبہ کر دی تھی۔ البتہ اس میں کراہت کا پہلو یہ ہے کہ اس قسم کا نکاح مقاصد شریعت کے خلاف ہے۔ ٭ اس قسم کا نکاح حرام ہے کیوں کہ اس کا مقصد صرف جنسی تسکین ہے، قرون اولیٰ میں اس قسم کے نکاح کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ نکاح مقاصد شریعت کے خلاف ہے کیوں کہ اس میں اولاد، تربیت اولاد، خاندانی حقوق و فرائض کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آتا، شریعت میں ظاہری الفاظ کے پیش نظر نہیں بلکہ مقاصد کو سامنے رکھ کر کوئی حکم لگایا جاتا ہے۔ ٭ کچھ اہل علم توقف کے قائل ہیں، وہ اس کی حلت و حرمت کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کرتے جیسا کہ شیخ ابن عثیمین رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ [1] ہمارے رحجان کے مطابق اس قسم کی شادی کا تصور اسلام میں نہیں پایا جاتا، بلکہ ہمارے نزدیک یہ شادی نکاح متعہ کی ایک جدید شکل ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک کے لیے حرام کر دیا ہے۔ اس قسم کا نکاح امیر لوگ غیر ممالک میں محض عیاشی اور جنسی تسکین کے لیے کرتے ہیں۔ اس کے متعلق ہمیں جو تفصیلات ملی ہیں ان کے مطابق ایک شخص کسی عورت سے معینہ مدت کے لیے شادی کرتا ہے،ا گرچہ اس کا الفاظ سے اظہار نہیں کرتا، یہ بھی ہوتا ہے کہ عورت کو کچھ رقم دے کر مدت کے تعین کے بغیر شادی کرتا ہے کہ جب تک میں زیر تعلیم ہوں یا کاروبار کے سلسلہ میں یہاں مقیم ہوں یا یہاں ملازمت کرتا ہوں، اس
[1] صحیح فقہ السنہ، ج۳، ص۱۵۹۔