کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 5) - صفحہ 38
یہ حکم سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہتے تھے: ’’ہم فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔‘‘[1] ٭… اگر دجال سے آمنا سامنا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس کی تکذیب کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس نے دجال سے کہہ دیا تو میرا رب ہے تو وہ اس کے فتنہ میں مبتلا ہوگیا اور جس نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے کہا کہ تو جھوٹا ہے تو اسے وہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔‘‘[2] 2۔… سورۂالکہف کی ابتدائی دس آیات حفظ کی جائیں اور انہیں بکثرت پڑھا جائے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس نے سورۂالکہف کی دس آیات یاد کر لیں اسے فتنہ دجال سے بچا لیا جائے گا۔‘‘[3] ابتدائی آیات کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے۔[4] ایک روایت میں آخری آیات کا ذکر ہے۔[5] لیکن ابتدائی دس آیات کی تائید ایک اور روایت سے ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جو بھی اس دجال کو پائے تو اس پر سورۂکہف کی ابتدائی آیات پڑھے کیوں کہ یہ آیات اس کے فتنے سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی۔[6] 3۔… مکہ یا مدینہ میں رہائش رکھنے سے بھی اس کے فتنے سے محفوظ رہا جا سکتا ہے کیوں کہ ان علاقوں میں دجال داخل نہیں ہو سکے گا اور نہ ہی وہاں کے باشندوں کو اپنے فتنے میں مبتلا کر سکے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دجال پوری روئے زمین کو روند ڈالے گا مگر مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہو سکے گا۔‘‘ [7] یاد رہے کہ فتنہ دجال سے بچاؤ کا اصل ذریعہ ایمان ہے، اگر ایمان نہیں تو حرمین کی رہائش بھی کچھ فائدہ نہیں دے گی۔ جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دجال آئے گا اور مدینہ طیبہ کے نواح میں قیام کرے گا، پھر مدینہ تین مرتبہ زلزلے سے دو چار ہوگا تو وہاں رہنے والا ہر کافر اور منافق نکل کر اس کی طرف چلا جائے گا۔‘‘ [8] 4۔… اس سے محفوظ رہنے کی نمایاں تدبیر یہ بھی ہے کہ اس سے بچنے والا اس جہادی سے دستے میں شریک ہو جائے جو اس کے خلاف برسر پیکار ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’میری امت میں سے ایک جماعت حق کی خاطر ہمیشہ جہاد کرتی رہے گی اور اپنے دشمنوں پر غالب رہے گی حتیٰ کہ ان کا آخری گروہ مسیح دجال کے خلاف جہاد کرے گا۔‘‘ [9]اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ جہادی دستہ دجال سے بھی لڑے گا اور اس پر غالب آئے گا لہٰذا اس دستے میں شرکت کرنا
[1] مسند احمد: ۴؍ ۲۸۔ [2] مسند احمد: ۴؍ ۲۸۔ [3] مسند احمد: ۶؍ ۴۹۹۔ [4] مسلم، صلوٰۃ المسافرین: ۸۰۹۔ [5] ابوداود، الملاحم: ۴۳۲۳۔ [6] ابوداود، الملاحم: ۴۳۲۱۔ [7] مسند احمد: ۳؍ ۱۹۱۔ [8] بخاری، الفتن: ۷۱۲۴۔ [9] ابوداؤد، الجہاد: ۲۳۷۴۔