کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 5) - صفحہ 37
دجال سے بچاؤ کا طریقہ
سوال :ہم نے احادیث میں پڑھا ہے کہ دجال آخری زمانے میں ظاہر ہوگا، لیکن اس کے باوجود تمام انبیاء علیہم السلام نے اپنی امتوں کو دجال اور اس کے فتنے سے ڈرایا ہے، آخر ایسا کیوں ہے؟ نیز دجال سے بچاؤ کا کیا طریقہ ہے جس سے ہمیں آگاہ کیا گیا ہے؟
جواب: لفظ دجال، دجل سے ماخوذ ہے، اس کا معنی دھوکہ دینا اور حقائق کو چھپانا ہے۔
دجال کا معنی یہ ہے کہ حقائق کو چھپا کر دھوکہ دینے والا، یقیناً وہ لوگوں کو سب سے زیادہ دھوکہ اور فریب دینے والا ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر قیامت برپا ہونے تک روئے زمین پر سب سے بڑا فتنہ دجال کا ہوگا۔ یہ فتنہ انتہائی ہولناک ہوگا، یہی وجہ ہے کہ سیدنا نوح علیہ السلام سے لے کر آخر الزماں رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خبردار کیا ہے تاکہ اس فتنے کی ہولناکی اور اس کا خطرہ واضح ہو جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اگر میری موجودگی میں وہ آیا تو تمہاری بجائے میں خود اس سے نمٹ لوں گا اور اگر وہ میری عدم موجودگی میں رونما ہوا تو پھر ہر آدمی اپنی طرف سے خود اس سے نمٹے گا اور میرے بعد اللہ تعالیٰ ہی ہر مسلمان پر نگہبان ہے۔‘‘[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں فتنہ دجا سے پناہ مانگا کرتے تھے۔[2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا زمانہ پانے والے مسلمانوں کو تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کے سامنے آنے سے گریز کریں اور اس کا سامنا نہ کریں مبادا اس کے فتنے کا شکار ہو جائیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص دجال کی خبر سنے وہ اس کے سامنے نہ آئے بلکہ اس سے دور رہے۔‘‘[3]
قیامت کی بیشتر علامات کا ظہور ہوچکا ہے، اب دجال اکبر کا ظہور بھی ہونے والا ہے، ہمیں چاہیے کہ ان حفاظتی تدابیر کو اپنائیں جنہیں اختیار کرنے سے دجال اور اس کے فتنے سے محفوظ رہا جا سکتا ہے، وہ تدابیر حسب ذیل ہیں:
1۔… اس کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی جائے جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نمازوں میں دجال سے پناہ مانگا کرتے تھے۔‘‘[4] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس فتنے سے پناہ مانگنے کا حکم دیتے تھے۔
حدیث میں ہے: ’’تم فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘
[1] مسلم، الفتن: ۲۹۳۷۔
[2] بخاری، الاذان: ۱۳۷۷۔
[3] مسند امام احمد: ۴؍ ۴۲۱۔
[4] بخاری، الاذان: ۸۳۳۔