کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 5) - صفحہ 36
بخاری و مسلم کی ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت مسلمانوں کا ایک امیر ہوگا۔ غالب گمان یہی ہے کہ وہ امیر حضرت مہدی ہوں گے کیوں کہ حضرت مہدی کے ظہور سے پہلے مسلمانوں کے ایک امیر کے تحت جمع ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، اس کی تائید درج ذیل احادیث سے ہوتی ہے: ٭ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مہدی میرے خاندان اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد سے ہوں گے۔‘‘ [1] امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے حضرت مہدی کا نسب نامہ یوں بیان کیا ہے: ’’محمد بن عبداللہ العلوی الفاطمی الحسنی۔‘‘[2] ٭ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مہدی ہم میں سے یعنی اہل بیت میں سے ہوگا، اللہ تعالیٰ اسے ایک رات میں درست فرما دے گا۔‘‘[3] اس کا مطلب یہ ہے کہ مہدی میں اچانک قائدانہ صلاحیتیں بیدار ہو جائیں گی اور وہ حکمرانی کے لائق ہو جائے گا۔ اس حدیث سے سینکڑوں سال امام مہدی کے زندہ رہنے کی نفی بھی ہوتی ہے۔ ٭ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر دنیا کا صرف ایک دن بھی باقی رہ جائے تب بھی اللہ تعالیٰ اس کو اتنا طویل کر دے گا کہ میرے خاندان یا میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو خلیفہ بنائے گا، اس کا نام میرے نام پر ہوگا اور اس کے باپ کا نام بھی میرے باپ کے نام پر ہوگا۔‘‘[4] ٭ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مہدی، میری نسل سے ہوگا، اس کی پیشانی فراخ اور ناک بلند ہوگی، وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جیسے وہ ظلم و زیادتی سے بھری ہوگی اور وہ سات سال تک حکومت کرے گا۔‘‘[5]اس سلسلہ میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہی مہدی ہیں۔[6] اس حدیث سے کچھ لوگوں نے یہ موقف کشید کیا ہے کہ حضرت مہدی سے مراد سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہیں لیکن یہ حدیث صحیح نہیں کیوں کہ اس کی سند میں ایک راوی محمد بن خالد الجندی ضعیف ہے۔[7] ان احادیث میں ہمارے لیے یہ پیغام ہے کہ جس طرح دجال کی آمد کے لیے سٹیج تیار کیا جا رہا ہے ہمیں چاہیے کہ امام مہدی کی آمد کے لیے محاذ گرم کریں اور پلیٹ فارم مہیا کریں کیوں کہ اس وقت اس امت کو غلبہ نصیب ہوگا۔
[1] ابوداؤد، المہدی: ۴۲۸۴۔ [2] النہایہ: ۱؍ ۲۹۔ [3] ابن ماجہ، الفتن: ۴۰۸۵۔ [4] ابوداود، المہدی: ۴۲۸۲۔ [5] مستدرک الحاکم: ۴؍ ۵۵۷۔ [6] ابن ماجہ، الفتن: ۴۰۳۹۔ [7] میزان الاعتدال: ۳؍ ۳۵۔