کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 5) - صفحہ 34
ایک اور حدیث میں ہے کہ ’’تین چیزیں منحوس ہیں: (۱)عورت جسے تو دیکھے تو تجھے بری لگے اور تجھ سے بدزبانی کرے۔ (۲) سست گھوڑا اگر تو اسے مارے تو تجھے مشقت اٹھانا پڑے اور اگر اسے کچھ نہ کہے تو تجھے ساتھیوں تک نہ پہنچا سکے۔ (۳)وہ مکان جو تنگ و تاریک ہو اور تجھے اس میں فائدہ بہت کم ہو۔‘‘[1] دراصل نحوست کے دو معنی ہیں: (۱) اس کا بے برکت ہونا (۲) طبیعت پر کسی چیز کا ناگوار ہونا۔ جن روایات میں نحوست کی نفی ہے، اس سے مراد پہلا معنی ہے اور جن میں اثبات ہے اس سے مراد دوسرا معنی ہے۔ بیوی، سواری اور گھر اگر دین و دنیا میں مفید ثابت نہ ہوں تو ان کے بدل لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بیوی جو بدمزاج، جھگڑالو اور خدمتگار نہ ہو اور نہ ہی دینی معاملات میں اس کی معاونت کرے تو ہر وقت حزن و ملال کو پالتے رہنا قرین مصلحت نہیں، اسے بدل لیا جائے۔ اسی طرح سواری اگر ناموافق اور اڑیل ہے تو درد سر بنائے رکھنا نیز وہ گھر جو تنگ و تاریک ہو اس کے ہمسائے اچھے نہ ہوں تو اسے بدل لینے میں چنداں حرج نہیں۔ بہرحال عورت ذاتی طور پر منحوس نہیں بلکہ اس کے اخلاق رذیلہ اسے منحوس بنا دیتے ہیں۔ واللہ اعلم قرآن مجید ہاتھ میں لے کر بات کرنا سوال: ایک آدمی قرآن حکیم ہاتھ میں لے کر بات کرتا ہے کہ میں آپ کو اتنی رقم دوں گا، اگر وہ نہیں دیتا تو کیا اس پر قسم کا کفارہ پڑ جاتا ہے؟ اور اگر کفارہ ہے تو وہ کتنا ہے؟ کیا بات کرتے وقت یہ انداز اختیار کرنا شریعت کے مطابق درست ہے یا نہیں؟ وضاحت کریں۔ جواب: قرآن مجید لوگوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے، جو اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں گے اللہ تعالیٰ انہیں اوج ثریا تک پہنچائے گا اور جو اس کی ہدایت سے روگردانی کریں گے انہیں قعر مذلت میں پھینک دے گا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے بہت سی قوموں کو بلند کر دیتا ہے اور اسی کتاب پر عمل نہ کرنے کی پاداش میں انہیں نیچے گرا دیتا ہے۔‘‘[2] ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ قرآن کریم ہاتھ میں لے کر لوگوں میں اپنا اعتماد بحال کرے اور چھوٹی چھوٹی باتوں اور حقیر چیزوں پر قرآن اٹھائے اور نہ ہی قرآن اٹھانے سے قسم کا انعقاد ہوتا ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص ہاتھ میں قرآن لے کر قسم اٹھاتا ہے تو اس کا پورا کرنا ضروری ہے اور خلاف ورزی پر اس کا کفارہ دینا پڑتا ہے جو حسب ذیل ہے: ٭ دس مساکین کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے جو اوسط درجے کا ہو۔ ٭دس مساکین کو لباس پہنائے۔ ٭اگر ان دونوں میں سے کسی کی طاقت نہ رکھتا ہو تو صرف تین دن کے روزے رکھے۔ اس کفارۂ قسم کی وضاحت قرآن کریم کی سورۃ الحدید آیت ۸۹ میں ہے۔ واللہ اعلم
[1] مستدرک الحاکم: ۲؍ ۱۶۲۔ [2] مسلم، صلوٰۃ المسافرین: ۸۱۷۔