کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 5) - صفحہ 28
تاھنوز جاری ہے اور اللہ کی توفیق سے قیامت تک جاری رہے گا ۔اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دور نبوت میں سوالات کی معمولی سی جھلک پیش کر دی جائے۔
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ عرض کیا یا رسول اللہ! ہم میں سے کوئی شکار کرتا ہے لیکن اس کے پاس ذبح کرنے کے لیے چھری نہیں ہوتی تو کیا وہ اسے پتھر سے یا لکڑی کے تیز پھٹے سے ذبح کرلے؟ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
’’خون بہاؤ، جس سے بھی تم چاہو اور اللہ کا نام ذکر کرو۔‘‘[1]
چنانچہ اس اجازت نبوی کے بعد حارثہ کے ایک آدمی نے لوہے کی میخ کے ساتھ اونٹنی کو نحر کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانے کی اجازت دی۔[2]
اسی طرح حضرت محمد بن صفوان رضی اللہ عنہ نے تیز دھاری دار پتھر سے دو خرگوش ذبح کیے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے متعلق سوال کیا تو آپ نے انہیں تناول کرنے کے اجازت دی۔[3]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا:
’’ہر نبی کے لیے ایک دعا مقبول تھی جو اس نے دنیا میں کر لی، لیکن میں چاہتا ہوں کہ اپنی دعا کو آخرت میں اپنی امت کی سفارش کے لیے محفوظ رکھوں۔‘‘ [4]
ایک موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سوال کر دیا:
’’یا رسول اللہ! قیامت کے دن آپ کی سفارش کی سعادت سب سے زیادہ کون حاصل کرے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ابوہریرہ! میرا بھی یہی خیال تھا کہ یہ بات تم سے پہلے کوئی اور مجھ سے نہیں پوچھے گا کیونکہ حدیث کے سلسلہ میں، میں تجھے بہت زیادہ حریص پاتا ہوں۔ قیامت کے دن میری سفارش کی سعادت سب سے زیادہ اسے حاصل ہو گی جس نے کلمہ لا الٰہ الا اللہ، خلوص دل سے پڑھا ہوگا۔‘‘ [5]
چونکہ فتویٰ کا موضوع اللہ کی طرف سے نازل شدہ احکام بیان کرنا ہے تاکہ اس کے مطابق عمل کیا جا سکے اس لیے مفتی کو اللہ تعالی کا ترجمان قرار دیا جاتا ہے نیز مفتی کس خاص امام کا نمائندہ نہیں ہوتا بلکہ وہ امام النّبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین ہوتا ہے جیسا کہ علامہ شاطبی فرماتے ہیں:
[1] ابوداؤد، الضحایا:۲۸۲۴۔
[2] ابوداؤد، الضحایا:۲۸۲۳۔
[3] ابوداؤد، الضحایا:۲۸۲۲۔
[4] بخاری،ا لدعوات:۶۳۰۴۔
[5] بخاری،ا لرقاق:۶۵۷۰۔