کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 5) - صفحہ 26
حافظ ابن حجر نے حضرت ابوامامہ سے مروی ایک حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:
’’علم کو اٹھا لینے سے پہلے پہلے (اسے) حاصل کرو۔‘‘
ایک دیہاتی نے یہ سن کر عرض کیا، یا رسول اللہ! علم کیسے اٹھا لیا جائے گا؟ تو آپ نے فرمایا:
’’حاملین علم کے فوت ہونے کے ساتھ علم رخصت ہو جائے گا۔‘‘
یہ بات آپ نے تین مرتبہ فرمائی۔[1]
اگرچہ اللہ تعالیٰ علوم و فنون کو سینوں سے محو کر دینے پر قادر ہے لیکن ان احادیث کے مطابق وہ ایسا نہیں کرے گا بلکہ قبض علم کی یہ صورت ہو گی کہ خود اہل علم ختم ہو جائیں گے اور آگے علماء پیدا نہیں ہوں گے پھر جہلاء ان علماء کی جگہ پر براجمان ہوں گے اور گمراہی پھیلائیں گے۔ ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم حدیث کی بنیاد پر فتویٰ دینا ہی حقیقی ریاست و امارت ہے۔
بہرحال آج کل مختلف ٹی وی چینلز پر ’’فتویٰ آن لائن‘‘ کے نام سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ مذکورہ احادیث میں بیان کردہ پیش گوئی کا ہی پیش خیمہ ہے۔ علم کے بغیر فتویٰ دینا کس قدر سنگین جرم ہے، اس کا اندازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک ہونے والے واقعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نکلے تو ہمارے ایک ساتھی کو پتھر لگ گیا، جس کی وجہ سے اس کے سر میں زخم آ گیا، اتفاق سے اسے احتلام ہوا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا: آیا میرے لیے کوئی گنجائش ہے کہ میں غسل کرنے کے بجائے تیمم کر لوں؟ انہوں نے جواب دیا، ہم تیرے لیے کوئی رخصت نہیں پاتے جبکہ تجھے پانی کے استعمال پر قدرت حاصل ہے، چنانچہ اس نے غسل کر لیا پھر وہ فوت ہو گیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا:
’’انہوں نے اسے قتل کر ڈالا، اللہ انہیں ہلاک کرے، انہوں نے اس مسئلہ کے متعلق پوچھ کیوں نہ لیا جبکہ انہیں علم نہیں تھا، بلاشبہ عاجز او ردرماندہ انسان کی شفا؟؟ کر لینے میں ہے۔‘‘ [2]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علم کے بغیر فتویٰ دینا بہت بڑی جہالت ہے، ایسے حالات میں اہل علم کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور ان سے راہنمائی لینی چاہیے، لیکن ہم بڑے قلق اور افسوس سے اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ آج دین وشریعت کے نام پر نااہل اور اباحیت پسند مفتیوں کے خانہ ساز فتووں کے سہارے حدود اللہ کو پامال کیا جا رہا ہے، حلال کو حرام اور حرام کو حلال کہنے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کی جاتی، حتی کہ ’’اس بازار‘‘ کی رونقیں بھی جواز قسم کے مکروہ فتاویٰ کی وجہ سے قائم ہیں، اس کے علاوہ سودی معیشت کو فروغ دینے کے لیے سرکاری ملاؤں اور علماء سو کے فتوے بنکوں، تکافلی کمپنیوں اور دیگر سودی اداروں کا رأس المال ہیں۔
ویسے تو اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے لوگوں کو جس طرح ذلیل و خوار کیا ہے، وہ اپنی جگہ نشان عبرت ہے۔ ایسے لوگوں کے
[1] فتح الباری، ص: ۲۵۷ ج۱۔
[2] ابوداؤد،الطہارۃ:۳۳۶۔