کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 4) - صفحہ 471
2 والدہ کی طرف سے صدقہ و خیرات کیا جائے اور اس کے حق میں دعائے مغفرت کی جائے، یہ ایسے کام ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے گناہوں کی تلافی کر دیتا ہے۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مذکورہ گناہ بھی معاف کر دے گا۔ انسان کو والدین کے سلسلہ میں بہت حساس رہنا چاہیے، ان کی اطاعت و فرمانبرداری کو حرزجاں بنانا چاہیے اور ان کی نافرمانی سے حتی الوسع اجتناب کیا جائے، والدین اگر کافر بھی ہوں تو بھی ان کا حق الخدمت ساقط نہیں ہوتا۔ قرآن میں اس کی صراحت ہے۔ (واللہ اعلم) خدمت گزاری میں ماں کا حق سوال:قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ماں کی خدمت گزاری کو بہت پسند کیا ہے بلکہ باپ پر اسے ترجیح دی ہے، اس کی کیا وجہ ہے ۔ کیا قرآن و حدیث میں اس کی صراحت ہے؟ جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ماں کی خدمت کو انسان کی سعادت اور خوش بختی کی علامت قرار دیا ہے کیونکہ ماں، اولاد کے سلسلہ میں بہت تکلیف برداشت کرتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اس کا ارشاد موجود ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسَانًا حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْھًا وَ وَضَعَتْہُ کُرْھًا ﴾[1] ’’ اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا، اس کی ماں نے اسے تکلیف سے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور تکلیف سے اسے جنم دیا۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماں نے حمل ، وضع حمل، دودھ پلانے، دودھ چھڑانے اور پرورش و تربیت کے سلسلہ میں بہت سی مشقتوں اور صعوبتوں کو برداشت کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدمت کے بارے میں ماں کے حق کو تین بار بیان کیا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: ’’ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ ‘‘ آپ نے فرمایا: ’’تیری ماں ‘‘ اس نے عرض کیا: ’’ پھر کون‘‘ آپ نے فرمایا: ’’ تیری ماں ‘‘ اس نے عرض کیا : پھر کون؟ آپ نے فرمایا: ’’ تیری ماں ‘‘ اس نے پھر عرض کیا، اس کے بعد کون حقدار ہے تو آپ نے فرمایا: ’’تیرا باپ ‘‘[2] اس حدیث میں صراحت ہے کہ خدمت کے سلسلہ میں والدہ کا حق زیادہ ہے، کیونکہ اس نے اولاد کے متعلق تکلیف زیادہ برداشت کی جیسا کہ قرآن کی مذکورہ آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ ( واللہ اعلم) لے پالک کی حقیقت سوال:میں اولاد سے محروم ہوں، میں نے اپنے دل کو تسلی دینے کے لئے اپنی بہن کے بچے کی پرورش کی ہے، اس کے ’’ب فارم ‘‘ میں بطور والد اپنا نام اور بطور والدہ اپنی بیوی کا نام لکھوا یا ہے ، شرعی طور پر ہمیں اس کی حقیقت سے آگاہ کریں؟
[1] الاحقاف: ۱۵۔ [2] صحیح مسلم، البر : ۲۵۴۸۔