کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 4) - صفحہ 377
اس ارشادِباری تعالیٰ میں پردے کا مقصد قلب و نظر کی طہارت اور عصمت و ناموس کی حفاظت قرار دیا گیا ہے، اس کے بعد آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ عورتو! تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر شاہد ہے۔‘‘[1] اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو تقویٰ شعاری کا حکم دے کر یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر تمہارے دلوں میں تقویٰ ہو گا تو پردے کا اصل مقصد قلب و نظر کی طہارت یقیناً تمہیں حاصل ہو گی ۔ بصورت دیگر ہم نے خود دیکھا ہے کہ حجاب کی ظاہری پابندیاں گناہ میں ملوث ہونے سے نہ بچا سکیں ا ور لمبے لمبے گھونگٹ نکالنے والی بظاہر دیندار دوشیزائیں رات کی تاریکی میں اپنے آشناؤں کے ساتھ بھاگ کر اپنے والدین اور بھائیوں کی عزت و ناموس خاک میں ملا دیتی ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ واضح رہے کہ ہماری دراز نفسی کا مطلب پردے کے احکام میں نرمی کرنا قطعاً نہیں بلکہ ہم صرف کہنا چاہتےہیں کہ شرعی پردے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے دوسرے حقوق بھی ادا کرنے چاہئیں تاکہ ہم کسی بھی قسم کی اخلاقی گراوٹ یا بے مروتی کا شکار نہ ہوں۔ ( واللہ اعلم) سوال:میری دو ماہ قبل شادی ہوئی ہے ، میں اپنی بیوی سے کہتا ہوں کہ جب گھر میں میرے بھائی ، ماموں یا چچا آئیں تو ان سے احوال گیری کر لیا کرو، لیکن اس پر دینداری کا غلبہ ہے جس کی بنا پر وہ اس طرح مزاج پرسی کرنے کو شرعی پردہ کے خلاف سمجھتی ہے، مجھے اس کی دینداری کی وجہ سے سخت امتحان کا سامنا کرنا پر رہا ہے، اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے، ممکن ہے کہ میری طرح دیگر قارئین بھی اس قسم کی آزمائش سے دو چار ہوں؟ جواب: اللہ تعالیٰ نے خاوند کو قیم یعنی گھر کا سربراہ کہا ہے۔[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کو اس کی بیوی کے لئے جنت یا دوزخ قرار دیا ہے۔[3] شریعت نے نیک بیوی کو بھی بہت اہمیت دی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ دنیا کا بہترین متاع انسان کی نیک بیوی ہے۔ [4] نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس انسان کو نیک بیوی مل گئی اسے گویا دنیا و آخرت کی خیر و برکت مل جاتی ہے۔ [5] بہر حال دین اسلام میں اچھے خاوند اور نیک بیوی کو بہت اہمیت دی گئی ہے لیکن افسوس کہ فریقین کی طرف سے اس سلسلہ میں افراط و تفریط کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، ہم اس موضوع پر تفصیل سے لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے اتفاقاً یہ سوال سامنے آ گیا، لہٰذا اس کے جواب میں ہماری کچھ گزارشات ہدیہ قارئین ہیں: اللہ تعالیٰ نے سورۂ تحریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے مقابلہ میں متبادل بیویوں کی جن صفات کا ذکر کیا ہے ان میں علم کے بجائے عمل و کردار کو نمایاں کیا گیا ہے، ویسے بھی جن بیویوں کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا ہو اور وہ عمل و کردار سے عاری ہوں تو ان میں خادمیت کے بجائے مخدومیت کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے جو گھریلو زندگی کےلئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ہمارے ہاں
[1] الاحزاب: ۵۵۔ [2] النساء : ۳۴۔ [3] مستدرک حاکم ص ۱۸۹ ج ۲۔ [4] صحیح مسلم، الرضاع: ۱۳۶۷۔ [5] شعب الایمان ص ۲۳۳ج۴۔