کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 4) - صفحہ 375
اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ خاوند کی اجازت کے بغیر بیوی اعتکاف نہیں کر سکتی اور اگر خاوند ، بیوی کو اعتکاف کرنے کی اجازت دے دے تو کسی ضرورت کے پیش نظر اپنی اجازت کو منسوخ کر سکتا ہے، اگرچہ عورت اعتکاف بیٹھ ہی کیوں نہ جائے، البتہ کچھ اہل علم کا موقف ہے کہ اگر خاوند نے بیوی کو اعتکاف کرنے کی اجازت دے دی اور پھر اس سے منع کر دیا تو وہ ایسا کرنے میں گنہگار ہو گا تاہم عورت کو چاہیے کہ وہ اعتکاف سے رُک جائے۔ لیکن ہمارا رجحان یہ ہے کہ اگر کوئی بیوی خاوند کی اجازت سے اعتکاف بیٹھ جائے تو پھر بھی خاوند کو یہ حق ہے کہ وہ اجازت واپس لیتے ہوئے اسے اعتکاف سے روک دے، درج بالا حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ ( واللہ اعلم) ایک معاشرتی مسئلہ سوال:میری شادی کو چھ ماہ ہوئے ہیں، بیوی دینی تعلیم سے آراستہ ہے ، میرے ماموں اور اس کے بیٹے ملاقات کے لئے گھر آئے ، میں اس وقت گھر میں نہیں تھا، ماموں نے گھنٹی بجائی تو بیوی نے آواز دی کہ شوہر گھر میں نہیں ہیں، انہوں نے بتایا کہ میں تمہارا ماموں ہوں اور میرا نام یہ ہے ، لیکن بیوی نے کہا کہ وہ گھر میں نہیں ہیں، یہ سن کر وہ واپس چلے گئے ،اس وقت سے آج تک ماموں ناراض اور ان کے بیٹے بھی خفا ہیں۔ مسئلہ حل نہیں ہو رہا ، اس مسئلہ کے متعلق ہماری راہنمائی فرمائیں کہ اگر بیوی کسی رشتہ دار کو بیٹھک کا دروازہ کھول کر بٹھا دے تو کیا یہ پردہ داری کے خلاف ہے؟ جواب: اس میں شک نہیں ہے کہ بیوی کا فرمانبردار ہونا بہت بڑی نعمت ہے اگرچہ وہ دینی تعلیم سے آراستہ نہ ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ کونسی عورت بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ وہ جو اپنے خاوند کو خوش کر دے جب وہ اسے دیکھے، جب وہ اسے کوئی حکم دے تو اس کی بجا آوری کرے اور اپنے مال و جان میں خاوند کی مرضی کے خلاف ایسا کام نہ کرے جو اسے ناپسند ہو۔ ‘‘[1] بیوی کا دینی تعلیم سے آراستہ ہونا بھی اللہ تعالیٰ کافضل ہے بشرطیکہ وہ اپنے خاوند کے گھر میں مخدوم بننے کے بجائے خادم بن کر رہے۔ صورت مسؤلہ کس قدر تکلیف دہ ہے کہ بیوی کی ظاہری دینداری نے قطع رحمی تک پہنچا دیا ہے، اگرچہ خاوند کا ماموں، بیوی کا ماموں نہیں بن جاتا، اس سے پردہ کے احکام وہی ہیں جو کسی اجنبی سے پردہ کرنے کے ہوتے ہیں لیکن پردہ میں رہتے ہوئے مہمان نوازی اور رواداری کا مظاہرہ کرنے میں چنداں حرج نہیں۔ اگر بیوی ، بیٹھک کا دروازہ کھول کر انہیں بٹھا دیتی اور ان کی احوال پرسی کر لیتی تو ایسا کرنے سے اس کا پردہ محفوظ رہتا ، لیکن بیوی کی ظاہری دینداری سے معاملہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا ہے۔ ہمارے معاشرہ میں بیسیوں لوگ اس قسم کے مسائل سے دو چار ہیں، ان پر گہری نظر اور سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا ہمیں خیر القرون کے ایک واقعہ سے اس قسم کے مسائل کے متعلق راہنمائی ملتی ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’ کسی روز یا کسی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: اس وقت تمہیں کس چیز نے تمہارے گھروں سے نکالا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: ہمیں بھوک نے ستایا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم
[1] سنن النسائي ، النکاح : ۳۲۳۱۔