کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 4) - صفحہ 36
لگا ہوا روئی کا ٹکڑا لے کر جہاں جہاں خون کے نشانات ہیں وہاں لگا دو تاکہ نا گواری کے اثرات ختم ہو جائیں۔ [1] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کی عطا کردہ عقل سے ’’توضئی‘‘ کا معنی سمجھ لیا اور عورت کو اس کا مفہوم سمجھا دیا۔ ٭…شرعی حکم میں مزید سہولت حاصل کرنا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا حکم دیں پھر اس میں اگر مزید سہولت کی گنجائش ہو تو اس کے متعلق سوال کیا جائے جیسا کہ فتح خیبر کے موقع پر صحابہ کرام نے گھریلو گدھوں کا گوشت بنا کر اس کی دیگیں آگ پر رکھ دیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق دریافت کیا تو بتایا گیا کہ گھریلو گدھوں کا گوشت پکایا جا رہا ہے ۔ آپ نے فرمایا گوشت کو ضائع کردو اور تمام ہنڈیوں کو توڑ دو، صحابہ کرام نے مزید سہولت کے پیش نظر سوال کیا کہ ہم گوشت ضائع کر کے انہیں دھو لیتے ہیں تو آپ نے فرمایا ٹھیک ہے انہیں دھو کر صاف کر لو۔[2] ٭…متضاد صورت حال سامنے آنے پرصحیح فیصلے تک رسائی : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھا، عرض کیایا رسول اللہ! اگر اسے آپ خرید لیں تو اچھا ہے تاکہ جمعہ کے دن اور سفیروں کی آمد کے وقت اسے زیب تن فرما لیا کریں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے تو وہ شخص پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔‘‘ اس کے بعد کہیں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس قسم کے ریشمی جوڑے آ گئے، ان میں سے آپ نے ایک جوڑا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی دیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :یا رسول اللہ!آپ نے مجھے یہ جوڑا عنایت فرمایا ہے حالانکہ آپ خود ہی حلہ عطارد کے متعلق کچھ فرما چکے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میں نے تمہیں یہ جوڑا اس لیے نہیں دیا کہ تم خود اسے پہنو۔‘‘ چنانچہ وہ جوڑا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مشرک بھائی کو پہنچا دیا جو مکہ میں رہائش پذیر تھا۔ [3] ٭…کوئی نئی صورت حال سامنے آئے تو صحت و صواب معلوم کرنے کے لیے سوال کرنا جیسا کہ حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے ایک عورت سے شادی کی تو ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ اور اس کی بیوی دونوں کو دو دھ پلایا ہے ، حضرت عقبہ نے کہا: مجھے تو علم نہیں کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے پہلے اس کی خبر دی ہے، چنانچہ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ سوار ہو کر مدینہ طیبہ پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا:’’جب ایسی بات کہی گئی ہے تو وہ تیرے گھر کیسے رہ سکتی ہے۔‘‘ آخر عقبہ نے اس عورت کو چھوڑ دیا تو اس نے کسی دوسرے شخص سے نکاح کر لیا۔ ‘‘[4] ایک چیز کے متعلق حلال اور حرام ہونے کے دونوں پہلو ہوتے ہیں۔ سوال کے ذریعے اس کے ایک پہلو کی تعیین کی جاتی ہے ۔ مثلاً ذبح شدہ بکری کے پیٹ جو مردہ بچہ بر آمد ہوتا ہے وہ اس حیثیت سے تو حلال ہے کہ بکری کے گوشت کا ایک حصہ ہے لیکن اس کا
[1] بخاری، الحیض: ۳۱۴۔ [2] بخاری، المظالم: ۲۴۷۷۔ [3] بخاری، الجمعۃ: ۸۸۶۔ [4] بخاری، العلم: ۸۸۔