کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 4) - صفحہ 33
مفتی کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ محنت، تلاش و جستجو اور طویل جد و جہد کے بعد پیش آمدہ مسائل کے متعلق اہل علم سے مشورہ کرے، مشورہ کرنے سے پیچیدہ مسائل میں راہنمائی ملتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام کے ساتھ مشاورت کرنے کا حکم دیاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’آپ ان سے در گذر کریں، ان کے لیے بخشش کی دعا کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ لیا کریں۔‘‘[1] اس حکم ربانی کے پیش نظر متعدد مواقع پر دینی، سیاسی اور اخلاقی معاملات میں اپنے صحابہ کرام سے مشاورت فرمائی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسیرانِ بدر کے متعلق اپنے صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔ اسی طرح غزوہ احد کے موقع پر بھی آپ نے اپنے جانثاروں سے مشاورت کی کہ شہر کے اندر رہتے ہوئے دفاع کیا جائے یابیرون شہر جا کر انہیں روکا جائے، واقعہ افک کے وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت اسامہ، حضرت علی اور دیگر صحابہ کرام سے مشاورت کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفا راشدین نے بھی دینی معاملات میں پیش آمدہ مسائل کے متعلق مشاورت کی روایت کو برقرار رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں ان کی تعریف فرمائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور جنھوں نے اپنے رب کی دعوت پر لبیک کہا، نماز کو قائم کیا اور ان کا ہر کام باہمی مشاورت سے ہوتا ہے۔ ‘‘[2] اس آیت کریمہ میں اشارہ ہے کہ امت مسلمہ میں ایک مجلس مشاورت ہونی چاہیے۔ جس سے اہم معاملات میں مشورہ کیا جا سکے، اسے فقہی اصطلاح میں اشارۃ النص کہا جاتا ہے، امام بخاری نے اپنی صحیح میں اس موضوع سے متعلق ایک عنوان قائم کر کے مانعین زکوۃ اور مرتدین کے خلاف قتال کے بارے میں حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام سے مشاورت کا ذکر کیا ہے۔[3] قرآن مجید کی جمع و تدوین کے متعلق حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کے مابین مشاورت کا تذکرہ بھی کتب حدیث میں ملتا ہے۔ [4] حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو صغر سنی کے باوجود اپنی مجلسِ مشاورت میں شریک کیا تو کبارصحابہ نے اس پر اعتراض کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مجلس میں امتحان لے کر ان کے علمی تفوق کو ثابت کیا۔ [5] حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پیش آمدہ پیچیدہ مسائل میں حضرات صحابہ کرام سے مشورہ کرنے کا اہتمام کرتے تھے جیسا کہ درج ذیل واقعات سے معلوم ہوتا ہے۔ ٭عورت کے پیٹ میں اگر کسی کی دست اندازی سے بچہ مر جائے تو اس کی دیت کیاہے، اس کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام سے رائے طلب کی۔ [6] ٭حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ جہادی سفر میں تھے کہ آپ کو شام کے علاقہ میں طاعون کے پھیل جانے کی اطلاع ملی تو آپ نے
[1] آل عمران: ۱۵۹۔ [2] الشوریٰ: ۳۸۔ [3] بخاری، الاعتصام باب نمبر ۲۸۔ [4] بخاری، فضائل القرآن: ۴۹۸۶۔ [5] بخاری، التفسیر:۴۹۷۰۔ [6] بخاری، الدیات: ۶۹۰۴۔