کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 4) - صفحہ 320
جواب: نکاح کی چار شرائط ہیں، لڑکے لڑکی کی رضا مندی ، ولی کی اجازت ، گواہوں کی موجودگی اور حق مہر وغیرہ۔ جس نکاح میں یہ چار شرائط پائی جائیں گی وہ نکاح صحیح ہے، حالت حیض میں نکاح بھی صحیح ہےالبتہ بعض فقہا ء نے حالت حیض میں لڑکی کی رخصتی کو مکروہ قرار دیا ہے تاکہ خاوند اس سے مقاربت کر کے گنہگار نہ ہو، نیز کتاب و سنت میں اس کے حرام ہونے کے متعلق کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی اس کی حرمت پر اجماع امت ملتا ہے، قیاس صحیح سے بھی اس کی ممانعت ثابت نہیں کی جا سکتی، ہمیں کسی فقیہ کا علم نہیں ہے جس نے اس قسم کے نکاح کو حرام کہا ہو پھر عقود و معاملات میں اصل جواز و اباحت ہے اِلا یہ کہ اس کی حرمت پر کوئی واضح دلیل ہو، حالت حیض میں نکاح کی حرمت پر کوئی دلیل ثابت نہیں ہے۔ بناء بریں اس حالت میں کیا ہوا نکاح جائز اور صحیح ہے۔ البتہ خاوند کو چاہیے کہ بیوی کے پاک ہونے کا انتظار کرے، اس کے پاس نہ جائے، جب وہ حالت حیض سے پاک ہو جائے اور غسل کر لے تو پھر خاوند اس کے پاس جا سکتا ہے۔ ( واللہ اعلم) خاوند کی وفات کے بعد عدت کا مسئلہ سوال:ایک عورت کا خاوند فوت ہو گیا ہے ، اس کے گھر میں اس کا قریب البلوغ بیٹا اور بالغ دیور رہتا ہے، اب عدت گزارنے کا مسئلہ در پیش ہے کہ بیوہ ، اپنے گھر میں عدت گزارے یا اپنے والدین کے پاس چلی جائے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں؟ جواب: خاوند کی وفات کے بعد عدت گزارنے والی عورت کا گھر میں رہ کر عدت گزارنے کے متعلق اہل علم کے دو موقف ہیں، ان میں مشہور اور قوی موقف یہ ہے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر میں رہتے ہوئے ایام عدت گزارے ، اس کی دلیل حسب ذیل واقعہ ہے: ’’ حضرت فریعہ بنت مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میرا شوہر اپنے بھاگے ہوئے غلام کی تلاش میں نکلا۔ انہوں نے موقع پاکر اسے قتل کر دیا، میں نے اپنی عدت اپنے میکے گزارنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، کیونکہ میرے شوہر نے اپنی ملکیت میں کوئی گھر نہیں چھوڑا تھا اور نہ اخراجات اور نان نفقہ کا کوئی بندوبست تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ! تم اپنے میکے جا کر اپنی عدت پوری کر سکتی ہو، جب میں حجرے میں بیٹھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آواز دی اور فرمایا: تم اپنے پہلے مکان میں رہو جب تک تمہاری عدت پوری نہ ہو جائے ، میں نے اپنی عدت اسی مکان میں گزاری جہاں میں اپنے خاوند کے ساتھ رہائش پذیر تھی، وہ فرماتی ہیں کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے کسی کو بھیج کر یہ مسئلہ مجھ سے دریافت کیا، میں نے انہیں صورت حال سے آگاہ کیا تو انہوں نے بھی اسی کے مطابق فیصلہ کیا۔ ‘‘[1] اس حدیث کے پیش نظر صورت مسؤلہ میں عورت کو اسی جگہ عدت گزارنا چاہیے جہاں وہ اپنے خاوند کے ہمراہ رہائش پذیر تھی، اپنے پاس اپنی والدہ یا کسی اور رشتہ دار کو رکھ لے، ہاں اگر وہاں رہنے میں اس کی عزت و ناموس یا اس کے مال کے ضیاع کا باعث ہے یا وہاں فاسق و فاجر لوگ موجود ہیں جن کی شرارتوں سے محفوظ رہنا ناممکن ہو تو پھر اپنے میکے جا کر ایام عدت گزار سکتی ہے لیکن اگر اپنے خاوند کے گھر رہتے ہوئے اپنے معاملات چلا سکتی ہے اور اسے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے تو ایسے حالات میں اس کا
[1] ابو داود ، الطلاق : ۲۳۰۰۔