کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 4) - صفحہ 316
ہمارے رجحان کے مطابق صورت مسؤلہ میں جو نکاح ولی کے بغیر ہوا ہے اس کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے، اگر اس نکاح کے متعلق کوئی کاغذی کارروائی نہیں ہوئی ہے تو اسے طلاق لینے کی بھی ضرورت نہیں ہے، ہاں اگر نکاح کا باضابطہ اندارج ہوا ہے تو مستقبل میں خطرات سے محفوظ رہنے کے لئے مرد سے تحریری طلاق نامہ لکھوا لیا جائے ، پھر جہاں والدین نکاح کرنا چاہتے ہیں اگر عورت وہاں راضی ہے تو نکاح کر دیا جائے، اس طرح وہ نکاح پر نکاح کی زد میں نہیں آئےگی۔ (واللہ اعلم) بانجھ پن کی وجہ سے طلاق دینا سوال:میں اہل حدیث ہوں اور میرا رشتہ ایک تبلیغی حنفی سے ہو گیا، نکاح کے آٹھ ماہ بعد اس نے مجھے اس بنیاد پر طلاق دے دی کہ میں اولاد کے قابل نہ تھی، میں نے اس کی بہت منت سماجت کی لیکن میری کوئی شنوائی نہ ہوئی ، کیا معاشرہ میں بانجھ عورت کی یہی عزت ہے، اس میں میرا کیا قصور ہے؟ اس سلسلہ میں مجھے کتاب وسنت کی روشنی میں مطمئن کیا جائے؟ جواب: نکاح کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ شوہر سے زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچوں کو جنم دینے والی عورتوں سے شادی کرو کیونکہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔‘‘[1] اس حدیث کا سبب ورودیہ ہے کہ ایک شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور اس نے عرض کیا ، یا رسول اللہ! مجھے ایک عورت ملی ہے جو عمدہ حسب و نسب اور حسن جمال والی ہے مگر اس کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تو کیا میں اس سے شادی کر لوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ نہیں ‘‘ پھر وہ دوبارہ آیا تو آپ نے منع فرمادیا ، جب وہ تیسری مرتبہ آیا تو آپ نے مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ولادت کی صلاحیت سے محروم عورت سے نکاح نہیں کرنا چاہیے کیونکہ نکاح کا اصل مقصود اولاد کا حصول ہوتا ہے، اس لئے جو عورت اس وصف سے ہی محروم ہو تو اس سے نکاح کرنے کا فائدہ ؟ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ بانجھ عورت سے مطلق طور پر نکاح کرنا حرام ہے، کیونکہ بعض اوقات نکاح کا مقصد حصول اولاد کے علاوہ کچھ اور بھی ہو سکتا ہےمثلاً بانجھ عورت بے سہارا ہے تو اسے سہارا دینے کے لئے نکاح کر لیا جائے یا بانجھ عورت دینی تعلیم سے آراستہ ہے تو دینی تعلیم کی نشر و اشاعت کے لئے اسے اپنے حبالہ عقد میں لے لیا جائے ، ایسے حالات میں ایسی بانجھ عورت سے نکاح کرنا جائز ہی نہیں بلکہ پسندیدہ امر ہے۔ عورت کے بانجھ ہونے کا کیسے پتہ چلا یا جائے؟ بیوہ عورت کے متعلق تو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں ہے مگر کنواری میں حیض نہ آنا ایک امکانی سبب تو سکتا ہے مگر یقینی نہیں ہوتا، بہت زیادہ محبت کرنے والی اور بہت زیادہ بچے جننے والی، یہ صفات خاندانی طرف سے پہچانی جاتی ہیں۔ صورت مسؤلہ میں نکاح ہو چکا ہے تو خاوند کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ اسے طلاق نہ دیتا جبکہ بیوی کی طرف سے دوسری شادی کرنے کی پیشکش بھی ہوئی، کیونکہ اولاد دینا یا اس سے محروم کرنا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کے لئے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے ، یا بیٹے بیٹیاں دونوں جمع کر دیتا ہے اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے۔‘‘ [2]
[1] ابو داؤد ، النکاح: ۲۰۵۰۔ [2] الشوریٰ : ۵۰۔