کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 4) - صفحہ 30
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’افتاء ایک عظیم الشان، جلیل القدر اور بہت ہی عزو شرف کا حامل عمل ہے ، کیونکہ مفتی در حقیقت انبیاء کرام کا وارث ہوتا ہے اور فرض کفایہ کو سر انجام دیتا ہے ،یہ ایک الگ بات ہے کہ اس سے غلطی بھی ہو سکتی ہے ۔ ‘‘[1]
مفتیان کرام کا مقام بہت اونچا اور عظیم الشان ہے ، اس کے ساتھ ساتھ انہیں شدیدترین ذمہ داری اور سخت ترین امتحان سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مفتی کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قرآنی احکام و مسائل کا عالم ہو اور ذخیرہ احادیث پر بھی اس کی گہری نظر ہو، اس کے علاوہ وہ مجتہدانہ بصیرت کا بھی حامل ہوتا کہ ہر پیش آمدہ مسئلے کا حل وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں پیش کر سکے۔ اگر اسے کسی سوال کا جواب دینے کے لیے کوئی نص صریح نہ مل سکے تو قرآن و حدیث کے نظائر کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے جواز و عدم جواز اور اس کی حلت و حرمت کا فیصلہ کر سکے۔ ہمارے سامنے آج نئے نئے مسائل ہیں ایسے مسائل میں وہ عوام کی سہولت کو بھی مدنظر رکھے، اسے دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے فتوی میں اوفق بالاسلام اور ارفق بالناس کا اہتمام کرے۔ اس سلسلہ میں امیر المحدثین، سید الفقہاء، امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں ۔ان کا اپنی مایہ ناز تصنیف صحیح بخاری میں ایک طرہ امتیاز یہ ہے کہ وہ مصالح عباد پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے چنانچہ انھوں نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے :’’جو کہتا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔‘‘[2]
امام بخاری کی یہ عادت ہے کہ جو حدیث ان کے قائم کردہ معیارِ صحت پر پوری نہیں اترتی لیکن اس کا معنی اور مضمون صحیح ہوتا ہے تو اسے عنوان میں رکھ کر دیگر احادیث سے اس معنی کی تائید کرتے ہیں مذکورہ بالا عنوان بھی ایک حدیث ہے جسے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔‘‘[3]
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ایسا نکاح باطل اور بے بنیادہے جو ولی کی اجازت کے بغیر ہو۔‘‘[4]
تیسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’وہ عورت بدکار ہے جو اپنا نکاح خود کرے۔‘‘[5]
امام بخاری نے مذکورہ بالا عنوان کے بعد ایک دوسرا عنوان بایں الفاظ قائم کیاہے:
’’باپ، دادا وغیرہ کسی عورت کا نکاح اس کی رضا مندی کے بغیر نہ کریں۔‘‘[6]
ان دونوں ابواب کا تقاضا ہے کہ عورت نہ تو اتنی مطلق العنان ہے کہ وہ جب چاہےجہاں چاہے اپنی شادی خود رچا لے اور نہ
[1] المجموع: ص ۴۰، ج۱۔
[2] بخاری، النکاح، باب نمبر ۵۷۔
[3] ابو داؤد، النکاح: ۲۰۸۵۔
[4] مسند امام احمد، ص ۴۷، ج۶۔
[5] ابن ماجہ، النکاح: ۱۸۸۲۔
[6] بخاری،النکاح، باب ۴۲۔