کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 4) - صفحہ 202
عدت ادا کرنے کی اجازت نہیں بلکہ وہ عدت سے فراغت کے بعدفریضہ حج ادا کرے گی۔ کیونکہ عدت کے آداب میں سے یہ بڑا ادب ہے کہ بیوہ اپنے گھر میں رہے اور شدید مجبوری کے بغیر اپنے گھر سے باہرنہ نکلے۔ سوگ اور عدتِ وفات کے آداب حسب ذیل ہیں: ٭ خوبصورت اور بھڑکیلا لباس زیب تن نہ کیا جائے۔ ٭ زیورات و جواہرات سے اجتناب کیا جائے۔ ٭ خوشبو اور دیگر اشیاء زینت سے پرہیز کیاجائے۔ ٭ زینت کے لئے سرمہ وغیرہ بھی نہ لگایا جائے۔ باقی فون پر بات نہ کرنا، چاندنی رات میں گھر کے صحن میں نہ جانا اور غسل وغیرہ نہ کرنا، اس طرح کی باتیں خرافات ہیں، عدتِ وفات سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ دورانِ احرام عورت کا پردہ سوال:ہم نے اپنے علماء سے سنا ہےکہ دوران احرام عورت کو پردہ کرنے کی اجازت نہیں، کیا یہ بات صحیح ہے، جبکہ پردہ کے احکام سر زمین حجاز میں نازل ہوئے ہیں، اگر عورت کو وہاں پردے کی اجازت نہیں تو وہ کہاں پردہ کرے گی، وضاحت کریں؟ جواب: عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ستر و حجاب کے معاملہ میں کسی قسم کی مداہنت کا شکار نہ ہو، خواہ وہ احرام کی حالت میں ہی کیوں نہ ہو، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (ترجمہ) ’’اے نبی ! اپنی بیویوں ، اپنی بیٹیوں اور اہل ایمان کی خواتین سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی چادروں کے پلو اپنے اوپر لٹکالیا کریں۔‘‘ [1] پھر چہرہ ہی وہ چیز ہے جو مرد کے لئے عورت کے تمام بدن سے زیادہ پر کشش ہوتا ہے اگر اسے ننگا رکھنا ہے تو حجاب کے باقی احکام بے سود ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر پیچھے رہ گئیں تو انہوں نے حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر فوراً اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانپ لیا۔[2] البتہ دورانِ حج احرام کی حالت میں عورت پر یہ پابندی ہے کہ وہ نقاب نہ پہنے جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’ احرام والی عورت نقاب نہ پہنے اور نہ ہی دستانے استعمال کرے۔ ‘‘[3] نقاب نہ پہننے کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ احرام والی عورت غیر محرموں سے چہرہ بھی نہیں چھپائے گی بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ایسا مخصوص سلا ہوا کپڑا جو پردہ کے لئے بنایا جاتا ہے استعمال میں نہ لائے۔ نقاب میں عورت اپنے چہرے کو باندھ لیتی ہے، اپنی ناک کے اوپر سے کپڑا گذار کر پردہ کیا جاتا ہے، صرف آنکھیں کھلی ہوتی ہیں، اس قسم کا پردہ کرنے کی ممانعت ہے وہ بھی احرام کی حالت میں۔ لیکن جب اجنبی آدمی سامنے آ جائے تو اپنی چادر کے ساتھ چہرہ چھپانا ہو گا جیساکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حالتِ احرام میں تھیں اور قافلے ہمارے سامنے سے گذرتے تھے جب وہ ہمارے سامنے آتے تو ہم اپنی چادریں منہ پر لٹکا لیتیں اور جب وہ گذر جاتے تو منہ کھول لیتیں۔ [4]
[1] الاحزاب: ۵۹۔ [2] صحیح البخاري ، المغازي: ۴۱۴۱۔ [3] مسند إمام أحمد ص ۲۲ ج ۲۔ [4] سنن أبي داؤد ، المناسک : ۱۸۳۳۔