کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 4) - صفحہ 153
مسائل عیدین سوال: عید الفطر کی آمد آمد ہے ، اس سلسلہ میں ہمیں مسائل سے آگاہ کردیں جو کتاب و سنت کے مطابق ہوں۔ جواب: شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ہر قوم کے لیے ایک دن ہو تا ہے جس میں وہ زیب و زینت سے آراستہ ہو کر اپنے گھروں سے نکلتے ہیں اور اپنی خوبصورتی کا اظہار کر تے ہیں۔ [1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ نے اہل مدینہ کو دیکھا کہ وہ سال میں دو مرتبہ نہا دھو کر، اچھے کپڑ ے پہن کراپنی زینت کا اظہار کر تے ہیں اور ان میں کھیل کود بھی کر تے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ ان دو دنوں کی کیا حیثیت ہے ؟ انھوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے ہی ان دنوں میں کھیل کود کیا کر تے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کے بدلے ان سے اچھے دو دن دیئے ہیں، ایک اضحی کا دن اور دوسرا فطر کا دن۔ ‘‘[2] شارحین نے لکھا ہے کہ یہ دو دن نو روز اور مہر جان کے دن تھے، اہل فارس (ایرانی )جب موسم خوشگوار اور معتدل ہو تا تو ان دو دنوں میں ’’جشن بہاراں‘‘ منا تے تھے ، عرب بھی ان کی نقالی میں ان دنوں خصوصی طور پر کھیل کود کا اہتمام کر تے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کو ان دنوں کے منا نے سے منع فرمایا اور ان کے بجائے دو اچھے دن یعنی عید الفطر اور عید الاضحی منا نے کا حکم دیا۔ کیونکہ ان دونوں کا تعلق موسم کی خوشگواری کے بجائے دو عظیم عبادات کی ادائیگی سے ہے یعنی رمضان کے روزوں اور اعمال حج کی ادائیگی۔ یہ دونوں دن انتہائی خیر و برکت کے ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ اپنے اطاعت گزاروں کے لیے اپنی وسیع مغفرت کا اعلان کر تاہے، ہم احکام عیدین کو اختصار سے ذیل میں بیان کر تے ہیں۔ صلوۃ عید کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے نماز عیدین کو التزام سے ادا کیا اور شریعت نے اس دن شان و شوکت کے اظہار کے لیے لو گوں کو کھلے میدان میں جا نے کا حکم دیا ہے حتیٰ کہ جو عورتیں اپنی مجبوری کی وجہ سے نماز نہیں پڑھ سکتیں انہیں بھی عید گاہ جانے کی تاکید ہے ، اس بنا ء پر نماز عیدین کا ادا کرنا ضروری ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کے وجوب کا قول اختیار کیاہے۔[3] نماز عید کا وقت نماز عید کا وقت طلوع آفتاب کے کچھ دیر بعد شروع ہو جا تا ہے اور زوال آفتاب سے پہلے ختم ہو جا تاہے ۔ چنانچہ صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ عید پڑھنے کے لیے تشریف لا ئے تو امام کے تاخیر کر دینے کو انھوں نے نا پسند کیا اور فرمایا کہ ہم تو اس وقت فارغ ہو چکے ہو تے تھے یعنی اشرا ق کے وقت[4] اس لیے نماز عید کی ادائیگی میں زیادہ تاخیر مناسب نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیگر امور کی نسبت نماز عید سب سے پہلے ادا کر تے تھے، عید الاضحی کو اول وقت میں ادا کرنا چاہیے تاکہ قربانی کے لیے کھلا وقت مل جائے۔
[1] حجۃ اللّٰه البالغہ: ص۳۲، ج ۲۔ [2] ابو داؤد، الصلوۃ: ۱۱۳۴۔ [3] مجموع الفتاویٰ : ص ۱۶۱، ج ۲۳۔ [4] ابو داؤد ، الصلوۃ : ۱۱۳۵۔