کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 4) - صفحہ 150
شب عید میں خصوصی عبادت کا اہتمام کرنا احادیث سے ثابت نہیں ہے ۔ ذیل میں ہم بیان کر دہ احادیث کی اسنادی حیثیت بیان کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں قرآن و صحیح احادیث پر عمل پیرا ہو نے کی توفیق دے۔ جواب: اس سلسلہ میں پہلی حدیث بیان کی گئی ہے جسے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے دونوں عیدوں کی رات میں اخلاص کے ساتھ اور حصول ثواب کے لیے قیام کیا تو اس کا دل اُس (قیامت کے ) دن زندہ رہے گا جس دن دل مردہ ہو جائیں گے ۔ ‘‘[1] یہ روایت انتہا درجہ کی ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں بقیہ بن ولید نامی راوی انتہائی مدلس ہے، محدثین کرام نے اس کی تدلیس سے اجتناب کر نے کی تلقین کی ہے ، علامہ البانی مرحوم نے اس روایت کو ‘‘ ضعیف جدا ً‘‘ یعنی انتہا درجہ کی ضعیف قرار دیا ہے۔ [2] بلکہ ایک مقام پر تو اسے موضوع اور خود ساختہ کہا ہے۔[3] پھر اس کی وجہ بیان کر تے ہوئے لکھتے ہیں :’’اس روایت میں بقیہ بن ولید نامی راوی بد ترین قسم کی تدلیس کرنے والا ہے، وہ ایسے کذاب لو گوں سے روایت کر تا ہے جو ثقہ راویوں سے بیان کر تے ہیں ، پھر کذاب راویوں کو حذف کر کے براہ راست ثقہ راویوں سے بیان کر نا شروع کر دیتا ہے، بعید نہیں کہ اس نے جس شیخ کو ساقط کر دیا ہے وہ اسی قسم کے کذاب راویوں سے ہو۔ [4] پھر ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: اس روایت کو علامہ اصفہانی نے عمر بن ہارون بلخی کی سند سے بیان کیا ہے۔ یہ روایت خود ساختہ ہے کیونکہ اسے بیان کر نے والا عمر بن ہارون بلخی کذاب راوی ہے ، میں نے پہلے اپنے شبہ کا اظہار کیا تھا لیکن اب مجھے یقین ہے کہ مذکورہ روایت اس کذاب کی وجہ سے موضوع ہے ، ممکن ہے کہ بقیہ بن ولید نے اسی کذاب سے اس روایت کو لیا ہو پھر اسے درمیان سے حذف کر کے براہ راست بیان کر دیا ہو۔[5] علامہ موصوف نے ضعیف التر غیب و التر ھیب میں بھی اسے موضوع قرار دیا ہے۔ [6] واضح رہے کہ بقیہ بن ولید کی تدلیس سے محدثین نے اجتناب کر نے کی تلقین کی ہے ، چنانچہ علامہ ذھبی رحمۃ اللہ علیہ نے حافظ ابو مسھر کا قول بایں الفاظ بیان کیا ہے :’’ بقیہ کی احادیث صاف ستھری نہیں ہو تیں، اس کی احادیث سے ایک طرف رہنا چاہیے۔ [7] اسل سلسلہ میں دوسری حدیث بایں الفاظ بیان کی گئی ہے کہ مشہور صحابی رسول حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو ان پانچ راتوں میں جاگے گا ( یعنی عبادت میں مصروف رہے گا ) اس کے لیے جنت واجب ہو جائےگی۔ 1 ذو الحجہ کی آٹھویں رات۔ 2 ذو الحجہ کی نویں رات، 3 عید الاضحی کی رات 4 عبد الفطر کی رات 5 شعبان کی پندرھوں رات۔[8] یہ روایت بھی بے اصل ہے ۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے بھی موضوع قرار دیا ہے۔[9]علاوہ ازیں علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ کا اس
[1] ابن ماجہ، الصیام: ۱۷۸۲۔ [2] سلسلہ الاحادیث الضعیفہ: ۵۲۱۔ [3] ضعیف ابن ماجہ: ۳۹۵، ص ۱۳۸۔ [4] سلسلہ الاحادیث الضعیفہ، ص ۱۱، ج ۲۔ [5] سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ، ص ۲۶۸، ج۱۱۔ [6] ص ۳۳۴، ج ۱۔ [7] میزان الاعتدال ، ص ۳۳۲، ج ۱۔ [8] التر غیب و الترھیب:ص ۲۷۳، ج ۱۔ [9] ضعیف التر غیب و التر ھیب ، ص ۱۷۔