کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 4) - صفحہ 132
زیادہ سے زیادہ سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر کو تینتیس (۳۳) مرتبہ پڑھنے کی ضرورت ہو تی ہے، ہاتھ کی گِرہوں پر آسانی سے اس عمل کو کیا جا سکتا ہے تاہم اگر کسی کی یاداشت کمزور ہے تو تسبیح استعمال کرنے میں چنداں حرج بھی نہیں۔ بہر حال جواز کی حد تک اس کے استعمال کو گوارا کیا جا سکتا ہے لیکن اسے بدعت کہنا سینہ زوری ہے۔ افضل یہ ہے کہ اس قسم کے اذکار مسنونہ کو انگلیوں اور ان کے پو روں پر کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’انگلیوں کے پو روں کے ساتھ گِرہ لگاؤ کیونکہ قیامت کے دن ان سے سوال کیا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا۔‘‘[1] ہاتھ میں تسبیح پکڑنے کی صورت میں ریا کاری کا بھی اندیشہ ہے، اس کے علاوہ تسبیح کے ساتھ ذکر کرنے والا اکثر و بیشتر حضور قلب سے کام نہیں لیتا جو ذکر کی روح ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف وہ تسبیح پھیر رہا ہو تاہے اور دوسری طرف دائیں بائیں دیکھ رہا ہو تا ہے۔ ہم نے ایسے لو گ بھی د یکھے ہیں جو ہاتھ سے تسبیح کر تے وقت زبان سے باتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ لہٰذا ہمارے نزدیک افضل اور بہتر ہے کہ تسبیح کے بجائے انگلیوں اور ان کے پو روں پر ذکر کیا جائے ۔ چونکہ تسبیح کا استعمال سہولت کے پیش نظر ہوتا ہے، اس کا تعلق قطعی طور پر عبادت سے نہیں لہٰذا اسے بدعت کہنے سے اجتناب کیا جائے۔ (واللہ اعلم) نماز میں چھینک کا جواب دینا سوال: اگر کسی نمازی کو دورانِ نماز چھینک آ جائے تو کیا وہ ’’الحمد للہ ‘‘ کہہ سکتا ہے نیز ساتھ والا شخص اس کی چھینک کا جواب دے سکتا ہے ؟قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔ جواب: دوران نماز اگر کسی کو چھینک آ جائے تو خاموشی سے آہستہ آواز کے ساتھ الحمد للہ کہہ سکتا ہے جیسا کہ حضرت رفاعہ بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کی، مجھے دوران نماز چھینک آئی تو میں نے یوں کہا:’’الحمد للّٰہ حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ مبارکا علیہ کما یحب ربنا و یرضی ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیر کر نماز سے فارغ ہو ئے تو آپ نے فرمایا:’’نماز میں گفتگو کس نے کی تھی ؟‘‘ آپ نے فرمایا:’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا جو ان کلمات کو لینے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے تھے۔ ‘‘[2] امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے بعد وضاحت کی ہے کہ چھینک مارنے والا آہستہ سے ان کلمات کو ادا کر سکتا ہے اس میں زیادہ وسعت سے کام نہ لیا جائے۔ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے کہ یہ حدیث دوران نماز چھینک مارنے کے لیے الحمد للہ کہنے پر دلالت کرتی ہے، اس کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہو تی ہے جسے حضرت معایہ بن حکم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھ رہا تھا اس دوران کسی دوسرے آدمی کو چھینک آ گئی تو اس نے الحمد للہ کہا ، میں نے باآواز بلند اس کا جواب ’’یرحمک اللہ ‘‘ سے دے دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے اچھے انداز سے مجھے سمجھاتے ہوئے فرمایا:
[1] مسند امام احمد، ص ۳۷۱،ج۶۔ [2] ترمذی، الصلوٰۃ:۴۰۴۔