کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 4) - صفحہ 104
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میری اس مسجد سے اگر کوئی اذان سننے کے بعد نکل جا تا ہے اور اسے کوئی ضروت بھی نہیں پھر وہ واپس نہیں آتا تو وہ پکا منافق ہے۔[1] اس حدیث میں اگرچہ مسجد نبوی کا ذکر ہے لیکن معنی کے اعتبار سے یہ حکم عام ہے جیسا کہ پہلی حدیث میں ہے۔ کیونکہ نماز باجماعت فرض ہے اور مسجد سے باہر نکل جانے کی صورت میں یہ فرض ادا نہیں ہو سکتا، ہاں اگر کوئی ضروت ہو تو ایسے حالات میں مسجد سے باہر جا سکتا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: کیا آدمی کسی عذر کی بنا پر مسجد سے باہر جا سکتا ہے ؟[2] پھر انھوں نے حدیث پیش کی ہے کہ ایک دفعہ اقامت ہو چکی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مصلیٰ امامت کے لیے کھڑے ہو چکے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم اپنی اپنی جگہ پر کھڑے رہو، پھر آپ گھر تشریف لے گئے اور غسل کر کے واپس آئے اور آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔[3] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اذان کیا، تکبیر ہونے کے بعد بھی کسی معقول عذر کی وجہ سے انسان باہر نکل سکتا ہے۔ صورت مسؤلہ میں بھی ایک معقول عذر ہے کہ امام اپنے گھر میں سنت ادا کرنے کا اہتمام کرتا ہے ، لہٰذا اگر امام اذان دے کر اپنے گھر سنت ادا کرنے کے لیے آتا ہے تو یہ جائز ہے۔ (واللہ اعلم) (ب)کیا مؤذن ہی تکبیر کہے ؟ شرعی اعتبار سے یہ ضروری نہیں کہ جو اذان کہے وہی تکبیر کہنے کا فریضہ ادا کرے ، کوئی بھی دوسرا شخص تکبیر کہہ سکتا ہے ۔ اس سلسلہ میں حدیث پیش کی جا تی ہے کہ حضرت زیادصدائی رضی اللہ عنہ نے اذان کہی ، جب جماعت کا وقت ہوا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہنے کا ارادہ کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اس صدائی نے اذان کہی ہے اور جو اذان کہے وہی اقامت کہے ، پھر انھوں نے ہی اقامت کہی۔ ‘‘[4] لیکن یہ روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہے کیونکہ اس میں عبد الرحمن بن زیاد افریقی نامی راوی ضعیف ہے ۔ چنانچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ یہ حدیث بیان کر نے کے بعد فرماتے ہیں:’’یہ حدیث افریقی سے مروی ہے اور محدثین کے نزدیک یہ راوی ضعیف ہے۔ [5]اس بنا پر موذن کے علاوہ کوئی بھی تکبیر کہہ سکتا ہے ۔ چنانچہ امام ابو داؤد رحمۃاللہ علیہ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:’’ مؤذن اذان دے اور تکبیر کوئی دوسرا کہے۔‘‘[6] اسے ثابت کرنے کے لیے حدیث پیش کی ہے کہ عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو خواب میں اذان سکھائی گئی تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی، آپ نے فرمایا: تم یہ کلمات حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بتاؤ، چنانچہ انھوں نے بتائے تو بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی،
[1] طبرانی، بحوالہ الاحادیث الصحیحہ،رقم:۲۵۱۸۔ [2] بخاری ، الاذان: باب نمبر ۲۴۔ [3] صحیح بخاری، الاذان:۶۳۹۔ [4] ابو داؤد، الصلوٰۃ:۵۱۴۔ [5] ترمذی،الصلوٰۃ:۱۹۹۔ [6] ابو داؤد،الصلوٰۃ:باب ۳۰۔