کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 4) - صفحہ 102
دیتے ہیں ، جب کہ مہمان نے نماز قصر پڑھنا ہو تی ہے لیکن بعض نمازی اسے اچھا نہیں سمجھتے، وہ امام کو مجبور کرتے ہیں کہ خود نماز پڑھائیں، کیا مسافر کے پیچھے مقیم کی نماز نہیں ہو تی ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔  جواب: اگر مسجد میں کوئی عالم دین آ جائے تو اس کے احترام کے پیشِ نظر اسے نماز پڑھانے کے لیے کہنا جائز ہے اور مقیم آدمی ، مسافر کے پیچھے نماز ادا کر سکتا ہے، اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ مکہ تشریف لائے تو انھوں نے وہاں کے باشندوں کو دو رکعت پڑھائیں اور فرمایا:’’اے اہل مکہ! تم اپنی نماز مکمل کر لو ہم تو مسافر لوگ ہیں۔ ‘‘[1] اس لیے مقتدی حضرات کو یہ عمل بُرا محسوس نہیں ہونا چاہیے اور انہیں اپنے امام کو اس امر پر مجبور نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کسی مہمان کی موجودگی میں خود ہی نماز پڑھائے، بہر حال امام مسجد کا عمل شریعت کے عین مطابق ہے۔ (واللہ اعلم) بارش میں نمازوں کو جمع کرنا سوال: بعض اوقات ایسا ہو تا ہے کہ نماز مغرب کے بعد مطلع ابر آلود ہو تا ہے ، معمولی بوندا بانی بھی ہوتی ہے ، گھنے بادل چھائے ہوتے ہیں ، زیادہ بارش آنے کا امکان ہوتا ہے ، ایسے حالات میں نماز مغرب کے ساتھ نماز عشا پڑھنے کی اجازت ہے ،کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے ، کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔ جواب:ہر نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ضروری ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ تم نے نماز کو بر وقت ادا کرنا ہے۔[2] اگر کوئی عذر ہو تو ایک نماز ک و دوسری نماز کے وقت میں جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ 1۔ پہلی نماز کے وقت میں دوسری نماز کو ادا کرنا اسے جمع تقدیم کہتے ہیں ، جیسا کہ مغرب میں عشا پڑھنا یا ظہر کے وقت عصر پڑنا 2۔ دوسری نماز کے وقت پہلی نماز پڑھنا مثلاً عشاء کے وقت مغرب پڑھنا یا ظہر کو مؤخر کر کے عصر کے وقت میں ادا کرنا اسے جمع تاخیر کہتے ہیں۔ جمع کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ظہر کو آخری وقت اور عصر کو اول وقت بایں طور پر پڑھنا کہ دونوں بظاہر جمع ہو جائیں اس کو جمع صوری کہتے ہیں لیکن یہ انتہائی مشکل ہے کیونکہ آخری وقت اور پہلے وقت کے اتصال کا پتہ چلانا، اس کا انتظار کرنا پھر اپنے اپنے صحیح وقت میں دونوں کو جمع کرنا، اس میں سہولت کے بجائے بہت زیادہ حرج ہے ، بہر حال کسی عذر کی بنا پر دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، وہ عذر سفر، مرض، خوف، بارش اور کوئی بھی ہنگامی ضرورت ہو سکتی ہے۔مثلاً دونوں نمازوں کے لیے الگ الگ وضو کرنے میں دَقت ہو یا کسی جگہ کسی اجتماعی معاملے پر گفتگو ہو رہی ہو اور درمیان میں وقفہ کرنا مناسب نہ ہو یا کوئی ڈاکٹر لمبا نازک آپریشن کر رہا ہو وغیرہ تو ایسے حالات میں دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے اگر موسم خراب ہو اور بارش آنے کا قوی امکان ہو تو پھر ایسے مقام جہاں دوران بارش مسجد میں آنا دشوار ہو تو ایسے حالات میں مغرب کے ساتھ پڑھنے میں حرج نہیں۔ چنانچہ جب اصحاب اقتدار بارش کی وجہ سے مغرب اور عشا کی نمازیں جمع کر تے تو حضرت عبد اللہ بن عمر علیہ الصلاۃ والسلام بھی ان کے ساتھ ان نمازوں کو جمع کر لیتے تھے۔ [3]
[1] موطا امام مالک، ص۱۴۹،ج۱۔ [2] صحیح مسلم، المساجد:۶۴۸۔ [3] موطا امام مالک ، قصرالصلوٰۃ، باب الجمع بین الصلاتین۔