کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 99
بغیر وضو اذان دینا سوال:کیا اذان دینے کے لیے با وضو ہونا ضروری ہے؟ اگر وضو کے بغیر اذان کہہ دی جائے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب:اذان دینا، اللہ کا ذکر کرنا ہے اس لیے بہتر ہے کہ اذان دینے کے لیے وضو کر لیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پسند تھی کہ آپ اللہ کا ذکر باوضو کرتے تھے جیسا کہ حضرت مہاجر بن قنفذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جب کہ آپ پیشاب کر رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے جب تک وضو نہ کر لیا مجھے سلام کا جواب نہ دیا پھر آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات ناپسند ہے کہ میں اللہ کا ذکر طہارت کے بغیرکروں۔ [1] ایک روایت میں ہے کہ آپ نے تیمم کرنے کے بعد سلام کا جواب دیا، ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کا جواب وضو اور تیمم کر کے دیتے تھے، چونکہ اذان بھی اللہ کا ذکر ہے اس لیے بہتر ہے کہ وضو کر کے کہی جائے لیکن وضو کو اذان کے لیے شرط قرار دینا محل نظر ہے۔ ایسی کوئی روایت کتبِ حدیث میں مروی نہیں ہے جس کے پیش نظر اذان کے لیے باوضو ہونے کو ضروری قرار دیا جائے، البتہ ایک حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اذان صرف باوضو شخص ہی دے۔‘‘ [2] لیکن یہ حدیث سند کے اعتبار سے قابل حجت نہیں ہے۔ [3] بہرحال اذان اللہ کا ذکر ہے اس بناء پر بہتر ہے کہ مؤذن اسے باوضو ہو کر ادا کرے لیکن اگر کسی مجبوری کی وجہ سے وضو کے بغیر اذان دی جائے تو اس میں چنداں حرج نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) وقت سے پہلے نماز پڑھنا سوال:اگر قبل از وقت نماز پڑھ لی جائے تو کیا وقت آنے پر دوبارہ پڑھنا ہو گی یا پہلے سے پڑھی ہوئی نماز کافی ہو گی؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب:شریعت نے نماز کے اوقات مقرر کیے ہیں، بلاوجہ اسے قبل از وقت ادا کرنا جائز نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا﴾ [4] ’’بے شک نماز کا اہل ایمان پر مقررہ اوقات میں ادا کرنا فرض ہے۔‘‘ حدیث میں ہے کہ ظہر کا وقت سورج ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے۔ [5] قرآنی آیت اور پیش کردہ حدیث کے مطابق اگر کسی نے وقت سے پہلے نماز ادا کی ہے تو اس سے فرض کی ادائیگی نہ ہو گی،
[1] ابوداود، الطہارۃ:۱۷ [2] بیہقی،ص:۳۹۷،ج۱۔ [3] ارواء الغلیل،ص:۲۴۰،ج۱۔ [4] ۴/النساء:۱۰۳۔ [5] صحیح بخاری، المواقیت:۵۴۱۔