کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 94
ہونے والی چیزیں حلال ہوں یا حرام۔ تمباکو کا استعمال تو علمائے اسلام کے ہاں محل نظر ہے چہ جائیکہ اسے استعمال کر کے مسجد میں آنا جائز ہو جس سے دوسروں کو ناگواری ہوتی ہو۔ نماز میں ہاتھ باندھنے کا درست طریقہ سوال:امسال حج کے موقع پر حکومت سعودیہ کی طرف سے حجاج کرام میں دینی کتب تحفہ کے طور پر تقسیم کی گئی ہیں، ان میں مختصر زاد المعاد بھی ہے اس میں دوران نماز ہاتھوں کے متعلق لکھا ہے کہ دونوں ہاتھوں کے رکھنے کی جگہ کے بارے میں کوئی صحیح روایت ثابت نہیں۔ (لیکن ابوداؤد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے باندھا جائے) اس کی وضاحت فرمائیں؟ جواب:نماز میں قیام کے دوران ہاتھ باندھنے کی جگہ کے متعلق اگرچہ علماء کا اختلاف ہے لیکن راجح اور برحق یہ ہے کہ دورانِ قیام سینے پر ہاتھ باندھے جائیں جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ ٭ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھی تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر اپنے سینے کے اوپر رکھا۔ [1] ٭ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں باز و پر رکھیں۔ [2] واضح رہے کہ جب بائیں بازو پر دایاں ہاتھ رکھا جائے گا تو دونوں ہاتھ خود بخود سینہ پر آجائیں گے۔ ٭ امام طاؤس رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے پھر انہیں اپنے سینے پر باندھتے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالتِ نماز میں ہوتے۔ [3] علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اگرچہ مرسل ہے تاہم تمام علماء کے ہاں قابل حجت ہے، کیونکہ یہ دوسری سندوں سے متصل بھی بیان ہوئی ہے۔ [4] اس لیے سوال میں مذکورہ کتاب کے حوالے سے لکھا گیا ہے وہ محل نظر ہے، البتہ بریکٹ میں ابوداؤد کی ایک روایت کا حوالہ دیا گیا ہے کہ ہاتھوں کو ناف کے نیچے رکھا جائے، یہ اصل کتاب مختصر زاد المعاد میں نہیں بلکہ مترجم نے اپنی طرف سے لکھا ہے غالباً اسی لیے اس عبارت کو بریکٹ میں رکھا گیا ہے۔ تاہم جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے وہ قابل حجت نہیں ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن اسحاق کوفی ضعیف ہے،امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس راوی کو بالاتفاق ضعیف قرار دیا ہے۔ [5] امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں کہ اس کے ضعیف ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔[6] بہرحال اس مسئلہ میں سب سے زیادہ صحیح روایت حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی ہے جس کا ہم نے گزشتہ سطور میں حوالہ دیا
[1] صحیح ابن خزیمہ،ص:۲۴۳،ج۱۔ [2] صحیح بخاری، الاذان:۷۴۰۔ [3] ابوداود، الصلوٰۃ:۷۵۹۔ [4] ارواء الغلیل،ص:۷۱،ج۲۔ [5] شرح مسلم نووی،ص:۱۰۵،ج۳- [6] خلاصہ، ص:۳۵۹،ج۱۔