کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 92
ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے چاشت کی بارہ رکعت ادا کیں، اس کے لیے جنت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک محل تیار کیا جاتا ہے۔[1] لیکن یہ حدیث ضعیف ہے جیسا کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی صراحت کی ہے۔ [2] بہرحال اس کے نام کئی ایک ہیں، صلوٰۃ الاوابین احادیث میں آیا ہے، ہم اس نماز کو نماز چاشت اور نماز اشراق کہتے ہیں، احادیث میں اس نماز کی بہت فضیلت آئی ہے، اگر ہمت ہو تو اس کا اہتمام کرنا چاہیے، جن حضرات نے اسے بدعت قرار دیا ہے، ان کا مؤقف درج بالا احادیث کے پیش نظر مرجوح ہے۔ (واللہ اعلم) جو آدمی اذان دے وہی تکبیر کہے؟ سوال:ہماری مسجد میں ایک آدمی نے اذان دی تو کسی دوسرے نے تکبیر کہہ دی، اس کے متعلق اختلاف ہوا کہ تکبیر وہی کہے جس نے اذان دی ہو، کیا واقعی ایسا ہی کرنا چاہیے؟ جواب :مصلحت کا تقاضا ہے کہ جو اذان کہے وہی تکبیر کہے تاکہ جماعتی نظم میں خرابی نہ آئے، شرعی اعتبار سے دونوں طرح جائز ہے چنانچہ حضرت زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو اذان دے وہی اقامت کہے۔ ‘‘[3] لیکن اس حدیث کی سند میں عبدالرحمن بن زیادہ افریقی ضعیف ہے، اس بناء پر یہ حدیث قابل حجت نہیں، اس پر مفصل بحث علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے۔ [4] ایک دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان دینے والے کے علاوہ کوئی دوسرا بھی اقامت کہہ سکتا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اذان دینے کے عمل کوخواب میں دیکھا، اس بناء پر میری خواہش تھی کہ مجھے مؤذن مقرر کیا جائے گا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اقامت کہو۔ [5] اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان دینے والے کے علاوہ دوسرا شخص بھی اقامت کہہ سکتا ہے لیکن یہ حدیث بھی سند کے اعتبار سے ضعیف ہے کیونکہ اس میں محمد بن عمرو وافقی نامی راوی ضعیف ہے۔ [6] چونکہ اصل اباحت ہے، اس لیے مؤذن کے علاوہ کوئی دوسرا شخص بھی تکبیر کہہ سکتا ہے، اگر مؤذن موجود نہ ہو تو اس کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ کوئی بھی دوسرا اقامت کہہ سکتا ہے لیکن اگر موجود ہے تو اسے تکبیر کہنے کا موقع دیا جائے، خواہ مخواہ ایسی باتوں کو بنیاد بنا کر اختلاف کی خلیج کو وسیع نہ کیا جائے۔ (واللہ اعلم)
[1] ترمذی، الصلوٰۃ:۴۷۲۔ [2] ضعیف ترمذی حدیث نمبر۷۰۔ [3] مسند امام احمد،ص:۱۶۹،ج۴ [4] الاحادیث الضعیفہ،ص:۵۴،ج۱۔ [5] مسند امام احمد،ص:۴۲،ج۴۔ [6] تقریب التہذیب،ص:۱۹۶،ج۲۔